1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیاں اور خلیجی عرب سلطنتیں

4 اپریل 2013

فن لینڈ کی محققہ ماری لوؤمی آج کل جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی قطر شاخ میں پڑھاتی ہیں۔ اپنی کتاب ’خلیجی سلطنتیں اور موسمیاتی تبدیلیاں‘ میں اُنہوں نے بتایا ہے کہ ان عرب ممالک نے کیسے قدرتی وسائل کا بری طرح سے استحصال کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/188B5
تصویر: privat

ڈوئچے ویلے کی آئرین کوئیل کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ماری لوؤمی نے بتایا کہ خلیجی عرب خطّے میں قدرتی وسائل سے استفادے اور ماحول کے تحفظ میں عدم توازن پیدا ہو گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اب ان ممالک کو گزشتہ ایک عشرے کے دوران اپنی بلا روک ٹوک ترقی کے منفی اثرات کا احساس ہونے لگا ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ اس دوران خلیجی عرب ریاستوں میں زمین اور پانی کو آلودہ کیا گیا ہے اور زمین سے بہت زیادہ پانی پمپ کر کے باہر لایا گیا ہے۔ حد سے زیادہ چَرائی کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع کم ہوا ہے اور تعمیراتی سرگرمیوں، ٹریفک اور صنعت کے باعث فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔

’خلیجی عرب ممالک میں شمسی توانائی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں لیکن تیل اور گیس کے ذخائر نے وہاں کی حکومتوں کی آنکھیں اتنی چندھیا دی ہیں کہ اُنہیں یہ امکانات نظر نہیں آ رہے‘
’خلیجی عرب ممالک میں شمسی توانائی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں لیکن تیل اور گیس کے ذخائر نے وہاں کی حکومتوں کی آنکھیں اتنی چندھیا دی ہیں کہ اُنہیں یہ امکانات نظر نہیں آ رہے‘تصویر: Shams Power Company

ڈاکٹر ماری لوؤمی نے بتایا:’’یہاں توانائی کی سلامتی سے لے کر معیشت، سماجی خوشحالی اور سیاسی استحکام تک ہر چیز کا انحصار تیل اور گیس کے معدنی وسائل پر ہے۔ مختصر مدتی اقتصادی فوائد اور سماجی توازن کو ترجیحی اہمیت دی جاتی ہے۔ تحفظ ماحول کو ہر جگہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ توانائی اور پانی کو بلا سوچے سمجھے فراخدلی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ نہ ہی اس بے تحاشا استعمال کو روکنے کے لیے قیمتیں مقرر کرنے کا کوئی نظام موجود ہے۔‘‘

عرب ممالک میں نظر آنے والی انقلابی تحریکوں اور اِن خلیجی ممالک میں توانائی اور ماحول کی پالیسیوں کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر لوؤمی نے بتایا کہ قطر میں ’عرب اسپرنگ‘ کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے۔ 2011ء میں خلیجی ملکوں میں یہ تحریک شروع ہونے کے بعد ابو ظہبی اور دیگر خلیجی ملکوں نے اپنے غربت کے شکار علاقوں میں اقتصادی ڈھانچے کو بھی بہتر بنایا ہے اور کچھ دیگر ترقیاتی منصوبے بھی متعارف کروائے ہیں۔

ابوظہبی یا قطر جیسی ریاستوں کا دار و مدار بھی تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے تاہم ان ممالک کی آبادی کم ہے، جس کے باعث اِن کے پاس مختلف قسم کے منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے کافی اضافی رقوم بچ رہتی ہیں۔ ڈاکٹر لوؤمی کے بقول ان ملکوں کے شروع کردہ ماحولیاتی منصوبے بھی اِسی اضافی رقم کا شاخسانہ ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں پانی پر تیرتی ایک مسجد کا منظر خلیجی عرب ممالک کے اُن متعدد تعمیراتی منصوبوں میں سے ایک ہے، جن پر بے پناہ وسائل خرچ کیے جاتے ہیں
متحدہ عرب امارات میں پانی پر تیرتی ایک مسجد کا منظر خلیجی عرب ممالک کے اُن متعدد تعمیراتی منصوبوں میں سے ایک ہے، جن پر بے پناہ وسائل خرچ کیے جاتے ہیںتصویر: Koen Olthuis, Waterstudio.NL

ڈاکٹر لوؤمی کے مطابق خلیجی عرب ممالک بھی خود کو موسمیاتی تبدیلیوں کے متاثرین بتاتے ہیں۔ ایک تو اِس لیے کہ نشیب میں واقع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ممالک گرم بھی ہیں اور خشک بھی۔ دوسرے اس لیے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کا راستہ روکنے کے لیے معدنی ایندھن سے استفادے کو ترک کرنے کے اقدامات اختیار کیے جاتے ہیں تو خلیجی ممالک کی معیشتوں پر اِس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈاکٹر لوؤمی بتاتی ہیں:’’خواہ اِن ممالک کے تیل کے ذخائر ابھی مزید ایک صدی تک ہی کے لیے کیوں نہ کافی ہوں، اِن کی تشویش بجا ہے کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ اِن ذخائر کی بین الاقوامی مانگ وقت سے بہت پہلے کم ہونا شروع ہو جائے۔ تاہم یہ عرب ریاستیں اُس طرح کے سماجی ڈھانچوں اور اداروں کی تشکیل کی منزل سے کوسوں دور ہیں، جو ترقی یافتہ صنعتی اقوام کی اصل بنیاد بنے ہیں۔‘‘  

ڈاکٹر لوؤمی کے مطابق توانائی کے قابل تجدید ذرائع بلاشبہ خلیجی عرب ملکوں کے لیے محفوظ آمدنی کا ایک ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس عرب خطّے کا مستقبل شمسی توانائی میں ہے لیکن تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی آمدنی نے اُن کی آنکھیں اتنی چندھیا دی ہیں اور اُنہیں اتنا سہل پسند بنا دیا ہے کہ اُنہیں یہ امکانات نظر ہی نہیں آ رہے۔ تاہم ڈاکٹر ماری لوؤمی نے یقین ظاہر کیا کہ دنیا بھر میں توانائی کے معدنی وسائل کو چھوڑ کر متبادل ذرائع سے استفادے کا جو بڑھتا ہوا رجحان نظر آ رہا ہے، وہ خلیجی عرب خطّے کو بھی مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دے گا۔

I.Quaile/aa/zb