افغان مہاجرین کی ملک بدری پھر شروع
3 اپریل 2017اس عالمی ادارے کے مطابق پیر کے روز سے پاکستان سے افغان مہاجرین کی تیز رفتار ملک بدری کا کام پھر سے شروع کر دیا گیا ہے۔ یو این ایچ سی آر اور بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت IOM کے مطابق رواں برس کے اختتام تک پاکستان سے افغانستان بھیجے جانے والے مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات لاکھ سے ایک ملین تک ہو سکتی ہے۔
گزشتہ برس پاکستان سے چھ لاکھ بیس ہزار افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا تھا۔ ان تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کی اہم وجہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ’سکیورٹی وجوہات‘ قرار دی گئی تھی۔
اسی تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کم ترین سطح پر دیکھے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہيں کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے ديتے ہيں۔
یہ بات اہم ہے کہ افغانستان پر سوویت حملے کے بعد پاکستان نے کئی ملین افغان باشندوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی، جب کہ بعد میں افغانستان میں خانہ جنگی کے تناظر میں بھی افغان مہاجرین پاکستان ہی میں بستے رہے۔ افغانستان میں طالبان کے پرتشدد حملوں کے باوجود پاکستان کی جانب سے افغان باشندوں کی ملک بدری کو عالمی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تاہم پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ماضی کے مقابلے میں حالات بہتر ہوئے ہیں اور ایسے میں ان مہاجرین کو اپنے وطن واپس لوٹنا چاہیے۔
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو عالمی ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے نقد مدد کے علاوہ دیگر ضروری اشیا بھی بہم پہنچائی جاتی ہے، تاہم لاکھوں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین اس مدد سے محروم رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو اس بڑے پیمانے پر ملک بدر کیے جانے سے کوئی انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔