1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مناسک حج کا آغاز

افسر اعوان خبر رساں ادارے
30 اگست 2017

سعودی عرب میں مسلمانوں کے مقدس ترین شہروں میں سے ایک مکہ میں مناسک حج کا آغاز ہو گیا ہے۔ رواں برس دنيا بھر سے آئے ہوئے دو ملين سے زائد مسلمان حج ادا کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2j73Y
Saudi Arabien | Muslimische Gläubige beten in der Pilgerstätte Mekka
تصویر: picture-alliance/AP

چین سے لے کر انڈونیشیا تک اور ترکی سے لے کر نائجیریا تک دنیا بھر سے مسلمان مرد اور خواتین حج کے مناسک کے لیے مکہ مکرمہ کے قریب مِنٰی کے میدان میں جمع ہو گئے ہیں۔ مرد حضرات دو سفید چادروں پر مشتمل یکساں لباس میں ملبوس ہیں تو خواتین بھی زیادہ تر سفید کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ اس لباس کو احرام کہا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دو ملین مرد وحضرات ایک ہی جیسے مناسک ادا کرتے ہوئے مذہبی یکجہتی اور مساوات کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ جسمانی اور مالی استطاعت رکھنے والے ہر مسلمان پر لازمی ہے کہ وہ زندگی میں ایک بار حج کرے۔ حج کے لازمی مناسک کا آغاز اسلامی مہینے ذی الحج کی آٹھ تاریخ سے ہوتا ہے جب تمام حجاج مِنیٰ میں پہنچتے ہیں اور وہاں رات بسر کرنے کے بعد نو ذی الحج کو میدان عرفات میں جمع ہو کر عبادات کرتے ہیں اور خطبہ حج سنتے ہیں۔ یہ وقوف عرفات کہلاتا ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ نو ذی الحج کی شب حجاج مزدلفہ میں پہنچ کر رات کو وہیں قیام کرتے ہیں۔ 10 ذی الحج کو حجاج پیغمبر ابراہیم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور جمرات پہنچ کر شیطان کی تین علامتی شبیہوں کو کنکر مارنے کے بعد خانہ کعبہ پہنچ کر اس کا طواف کرتے ہیں۔

یہ تمام مناسک ادا کرنے کے بعد حجاج سفید چادروں پر مشتمل لباس یا احرام اتار کر عام لباس زیب تن کر سکتے ہیں۔ تاہم حجاج کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ اس کے بعد کی دو یا تین راتیں منیٰ میں ہی گزاریں۔ اس طرح حج کے مناسک کا اختتام ہوتا ہے۔

Saudi Arabien Mekka Pilger
حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ جسمانی اور مالی استطاعت رکھنے والے ہر مسلمان پر لازمی ہے کہ وہ زندگی میں ایک بار حج کرےتصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh

رياض حکام کے مطابق حجاج کی سلامتی کو يقينی بنانے اور کسی نا خوشگوار واقعے سے نمٹنے کے ليے ايک لاکھ سے زائد سکيورٹی اہلکار تعينات کيے گئے ہيں۔ حج ميں اس بار ايرانی شہری بھی شريک ہيں جب کہ روايتی حريف رياض اور تہران کے مابين تناؤ کے سبب گزشتہ سال ايرانی باشندے حج کے فرائض انجام نہيں دے پائے تھے۔ اس بار سعودی عرب اور قطر کے مابین سفارتی تنازعے کے بادل بھی چھائے ہوئے ہيں۔