1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممتاز قادری کیس: روزانہ سماعت کے لیے تیار ہیں، عدالت

شکور رحیم، اسلام آباد27 جنوری 2015

پاکستانی دار الحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر تین سال کے التوا کے بعد آج(منگل) کو دوبارہ سماعت شروع کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1ER7b
Pakistan Mumtaz Qadri Mord Gouverneur Salman Taseer
تصویر: AP

سماعت کے آغاز پر ہی ممتاز قادری کے وکیل اور لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف نے کہا کہ اس مقدمے کی پیروی کے لئے نہ تو وفاقی حکومت تیار نظر آتی ہے اور نہ ہی شکایت کنندہ کی جانب سے کوئی پیش ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں دہشت گردی کے مقدمات کی جلد سماعت کا فیصلہ نہ ہوتا تو شاید ان کے مؤکل کا مقدمہ مزید تین سال تک بھی زیر سماعت نہ آتا۔

استغاثہ کی جانب سے مقدمے کی تیاری کے لئے مہلت مانگنے پر عدالت نے سماعت ایک ہفتے لئے ملتوی کر دی۔ دورکنی بنچ میں شامل جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس تاثر کو زائل ہونا چاہیے کہ استغاثہ کسی خوف کی وجہ سے مقدمے کی پیروی کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے جو مناسب نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ عدالت گورنر پنجاب کے مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کو تیار ہے۔

خیال رہے کہ پنجاب پولیس کا سابق اہلکار ممتاز قادری پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا محافظ تھا اور اس نے مبینہ طور پر توین مذہب کے الزم میں چار جنوری 2011 ء کو فائرنگ کرتے ہوئے سلمان تاثیر کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے یکم اکتوبر 2011 کو سلمان تاثیر کے قتل کے اعتراف پر ممتاز قادری کو موت کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف ممتاز قادری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی۔

قانونی ماہرین کے خیال میں تین سال کے بعد سماعت کے لئے مقرر ہونے والے مقدمے میں استغاثہ کی طرف سے التواء کی درخواست اس مقدمے کی پیروی میں سنجیدگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے سابق جج اور سپریم کورٹ کے وکیل طارق محمود کا کہنا ہے اگر حکومتی رویہ یہی رہا تو پھر ممتاز قادری کی طرح کے جرائم کا خاتمہ کرنا محض خام خیالی ہی ہوگی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "فوجی عدالتیں بھی بنا دی گئیں لیکن مسئلے کی اصل جڑ پر توجہ نہیں دی گئی۔ دہشت گردی کے مقدمات میں ناقص تفتیش اور کمزور استغاثہ ملزمان کی بریت کی بڑی وجہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ممتاز قادری اور اسی نوعیت کے دیگر مقدمات میں ملوث ملزمان کے بارے میں یہ خبریں بھی ہیں کہ وہ جیل میں اپنے شدت پسندانہ نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ طارق محمود کے بقول، ’’اگر ایک مجرم جیل میں جاکر بھی اپنے کاموں سے باز نہیں آتا تو کیا وہاں پر بھی عدالتیں اس پر نظر رکھیں یا یہ متعلقہ حکام کا کام ہے؟ ‘‘

خیال رہے کہ منگل کے روز اپیل کی سماعت کے موقع پر خواجہ شریف کے ہمراہ ممتاز قادری کے حامی وکلاء کی ایک قابل ذکر تعداد بھی موجود تھی۔ سولہ دسمبر کو پشاور میں فوج کے زیر انتظام سکول پر شدت پسندوں کے حملے میں 134 بچوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے واقع کے بعد حکومت نے شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متعدد ہنگامی اقدامات کیے ہیں۔

انہی اقدامات کے تحت معاشرے میں انتہاپسندانہ خیالات کو فروغ دینے اور مذہبی منافرت پھیلانے والے لٹریچر کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے۔ پہلی مرتبہ ملک بھر میں خلاف قانون لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے پر ہزاروں مساجد کے اماموں اور خطیبوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے معاملات پر نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہے کہ انتہا پسندانہ رجحانات کے خاتمے کے لئے ریاست کو اپنی عملداری قائم کرنا ہو گی۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ’’ایسے تمام محرکات پر نظر رکھی جائے جن کے تحت مختلف فرقے یا نطریے کی بنیاد پر کسی کی جان نہ لے سکیں اور یہ ایک مسلسل عمل ہے اس کا کسی ایک مقدمے کا فیصلہ ہونے یا نہ ہونے سے نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس وقت بظاہر حکومت انتہا پسندی کے خاتمے میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے لیکن قانون کے یکساں نفاذ کو ممکن بنائے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔