1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممتاز روسی ادیب الیگذانڈر زولشے نتسن کا انتقال

امجد علی11 اگست 2008

سچ لکھنے کی پاداش میں قیدو بند کے ساتھ ساتھ جلا وطنی کی بھی صعوبتیں برداشت کرنے والے ممتاز روسی ادیب الیگذانڈر زولشے نتسن حال ہی میں نواسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

https://p.dw.com/p/Ev36
بیمار زولشے نتسن بارہ جون سن2007ء کو 87 برس کی عمر میں روس کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز وصول کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

الیگذانڈر زولشے نتسن روس میں انقلابِ اکتوبر کے کچھ ہی عرصے بعد گیارہ دسمبر سن 1918ء کو شمالی قفقاز میں کِسلو ووڈسک کے مقام پر پیدا ہوئے۔ اُن کے والد روسی توپ خانے کے افسر تھے لیکن زولشے نتسن کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہی شکار کے دوران ایک حادثے میں مارے گئے۔

زولشے نتسن کی پرورش غربت کے ماحول میں ہوئی۔ ہوش سنبھالا تو پکے سوشلسٹ بن گئے۔ ریاضی اور طبیعیات کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سن 1941ء میں فوج سے وابستہ ہو گئے کیونکہ تب ہٹلر کی قیادت میں جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا تھا۔ زولشے نتسن لینن کے تو مداح تھے لیکن جوزیف سٹالن سے وہ فاصلے پر چلے گئے۔

دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کو تھی، جب زولشے نتسن کا اپنے ایک دوست کے نام لکھا گیا وہ خط سیکرٹ سروس کے ہاتھ لگ گیا ، جس میں زولشے نتسن نے سٹالن کا مذاق اڑایا تھا۔ اِسی کی پاداش میں اُنہیں جیل بھیج دیا گیا۔ ماسکو میں سیکرٹ سروس کے جی بی کے تہہ خانوں میں تفتیشی مراحل سے گذارنے کے بعد اُنہیں سائیبیریا بھیج دیا گیا، جہاں آنے والے کئی برس زولشے نتسن کو گُلاگ نامی بیگار کیمپ میں گذارنے پڑے۔

اپنی کتاب گُلاگ آرچی پِلاگو میں زولشے نتسن نے اِس کیمپ میں اپنے اور اپنے ساتھی قیدیوں کے روز و شب کا رونگٹے کھڑے کر دینے والا احوال تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ساٹھ کے عشرے کے اواخر میں، جب وہ اپنی زندگی کی یہ شاہکار کتاب لکھنے میں مصروف تھے، اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کن مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کتاب لکھ رہے ہیں، تب زولشے نتسن نے کہا تھا:

”کسی بھی ادبی تخلیق کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور اِس لئے اُس کے اہداف بھی ہمہ جہت ہوتے ہیں۔ کوئی فنکار اپنے لئے کوئی سیاسی اہداف متعین نہیں کر سکتا، جیسے کہ مثلاً سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کا ہدف۔ ہاں، یہ کسی تخلیق کا ضمنی اثر ضرور ہو سکتا ہے۔ فنکار کا اصل کام لیکن جھوٹ اور انسان دشمن نظریات کے خلاف جنگ لڑنا ہے۔ لوگوں کو اصل حقائق کی یاد دِلاتے رہنا اُس کی جدوجہد کا حصہ ہونا چاہیے۔ جو قوم اپنی یاداشت بھول جاتی ہے،وہ اپنی تاریخ اور اپنی رُوح سے محروم ہو جاتی ہے۔ مَیں جب اِس کتاب کو لکھ رہا ہوتا ہوں، میرا کام یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ویسے ویسے بیان کروں، جیسا وہ تھا، یہی میرا سب سے بڑا مقصد ہے۔“

1953ء میں سٹالن کے انتقال کے بعد زولشے نتسن کو جلا وطن کر کے ایک قازَق گاؤں میں بھیج دیا گیا، جہاں وہ ایک اسکول میں ریاضی پڑھاتے رہے۔ کہیں 1956ء میں اُنہیں واپس آ کر ماسکو سے 200 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع Rjasan میں آباد ہونے کی اجازت ملی۔

ادیب بننا اسکول کے زمانے سے ہی اُن کا خواب رہا تھا، اِس لئے اِس دَور میں اُنہوں نے خود کو لکھنے لکھانے کے لئے وقف کر دیا۔ نکیتا خروشیف خود کو ایک آزاد خیال رہنما کے طور پر سامنے لانے کے خواہاں تھے ، اِس لئے اُن کے ایماء پر زولشے نتسن کی ایک کہانی ایک معروف روسی ادبی جریدے نئی دُنیا میں شائع کر دی گئی۔ ”اِیوان ڈے نِیزو وِچ کی زندگی کا ایک دِن“، جس میں ایک کسان کے نقطہء نظر سے کیمپ کے شب و روز بیان کئے گئے تھے۔

Russland, UDSSR, Geschichte, Gulag
سوویت دَور میں Gulag کا بدنامِ زمانہ حراستی اور بیگار کیمپتصویر: picture-alliance/dpa

یہاں سے زولشے نتسن کے شاندار ادبی کیرئر کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ لیکن خروشیف جلد ہی اقتدار سے رخصت ہو گئے اور اُن کی جگہ برسرِ اقتدار آنے والے لیونِیڈ برژنیف نے ایک بار پھر زولشے نتسن کا جینا دُو بھر کر دیا۔ تاہم وہ لکھتے رہے اور اُنہوں نے ”جہنم کا پہلا دائرہ“ اور ”کینسر وارڈ“ کے ساتھ ساتھ تین جٍلدوں پر مبنی اپنا شاہکار ناول ”دا گُلاگ آرچی پِلاگو“ بھی مکمل کیا، جس کی پاداش میں اُنہیں گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔

تب وہ ماسکو سے آتے ہوئے جرمن شہر فرینکفرٹ اُترے اور کولون آ کر اپنے دوست اور ممتاز نوبیل انعام یافتہ جرمن ادیب ہائنرِش بوئیل کے ہاں ٹھہرے۔ زولشے نتسن خود کو جرمن ادب و ثقافت کا دوست قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اسکول کے زمانے میں اُنہوں نے کلاسیکی جرمن ادیبوں گوئٹے، شِلر اور ہائنے کو پڑھا تھا۔

کولون میں جب صحافیوں نے اُن کے تاثرات جاننا چاہتے تو جرمن زبان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنی روئیداد کچھ یوں بیان کی تھی: ”آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مَیں اِس وقت بہت تھکا ہوا ہوں اور اپنے کنبے کے حوالے سے کافی فکرمند بھی۔ مجھے ماسکو ٹیلی فون بھی کرنا ہے۔ آج صبح تک مَیں ابھی جیل میں تھا۔“

سن 1970ء میں اُنہیں ادب کا نوبیل انعام دینے کا اعلان کیا گیا لیکن حکام نے اُن کو دھمکی دی کہ وہ اگر یہ انعام وصول کرنے گئے تو واپس روس نہیں آ سکیں گے۔ چنانچہ یہ انعام اُنہوں نے سٹاک ہولم میں کہیں گیارہ دسمبر سن 1974ء کو وصول کیا۔ اِس موقع پر اپنی تقریر میں اُنہوں نے کہا:

”سویڈش اکیڈمی کو بہت سے الزامات سننا پڑے ہیں کہ یہ فیصلہ سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا۔ یہ الزامات وہ لوگ عاید کر رہے ہیں، جن کے خود کبھی کوئی اور مفادات نہیں رہے، سوائے سیاسی مفادات کے۔ لیکن آپ اور ہم جانتے ہیں کہ ایک تخلیق کار کے کام کو کسی بے چاری سیاسی جِہت میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری پوری کی پوری زندگیاں اِس جہت سے ماورا ہیں، ہمیں اپنے سماجی شعور کو اِس جہت کا پابندنہیں بنانا چاہیے۔“

جرمنی میں مختصر قیام کے بعد زولشے نتسن سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ نومبر سن 1974ء میں زیورِچ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زولشے نتسن نے کہا: ”دُنیا میں بہت سے لوگ میرے اِس نقطہء نظر سے متفق ہیں کہ اگر انسان اچھے نہ ہوں تو اچھا معاشرہ بھی تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ اخلاقی تبدیلی کے بغیر سماجی اصلاحات بے فائدہ ہیں۔ ایسے ہی اگر اَقوام کے درمیان تعلقات خراب ہوں تو ایک اچھی دُنیا تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ جب تک قوموں کے درمیان گرم جوشی نہیں ہو گی، سفارت کاری جتنا مرضی مثبت اور عملیت پسند ہو، کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔ آج کی دُنیا میں کوئی ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں، جسے صرف اور صرف سیاسی اعتبار سے حل کیا جا سکتا ہو۔ اِن مسائل کے حل کا آغاز اخلاقی تبدیلی سے ہونا حاہیے۔اَقوام کے درمیان تعلق کے حوالے سے اِس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے قصور کو مانا جائے اور اُس پر شرمندگی اور پچھتاوے کا اظہار کیا جائے۔“

سوئٹزرلینڈ میں مختصر قیام کے بعد زولشے نتسن امریکہ پہنچ گئے، جہاں اُنہوں نے برسوں الگ تھلگ زندگی گذاری اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اِس سارے دَور میں کبھی بھی اپنے وطن کی یاد اُن کے ذہن سے محو نہیں ہوئی۔ 1976ء میں بی بی سی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا تھا: ”میرا اپنا مستقبل میرے وطن کی قسمت کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ میرا تمام تر کام صرف اور صرف اپنے وطن کے لئے ہے۔ ہماری تاریخ کو چھپایا گیا ہے، جو بتایا گیا ہے، وہ سراسر جھوٹ ہے۔ مَیں اپنی قوم کے لئے تاریخ کو اُس کی اصل شکل میں سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایک مخصوص حد تک شاید مغربی دنیا کے لئے بھی یہ بات سُود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ میرے مستقبل کا انحصار اِس بات پر ہے کہ میرے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔“

گو 1990ء میں میخائیل گورباچوف نے اُن کی روسی شہریت بحال کر دی تھی لیکن اُن کی روس واپسی کہیں 1994ء میں بورِس ژیلتسن کے دَور میں ہوئی۔ اُنہوں نے ژیلتسن کے دَورِ حکومت اور روس کی نئی صورتِ حال کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

گو زولشے نتسن نے گورباچوف اور ژیلتسن کی طرف سے اعلیٰ اعزازات قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن سن 2007ء میں روسی صدر ولادی میر پوٹین کے ہاتھوں اُنہوں نے روس کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز وصول کر لیا۔

ایک ایسے روس کو، جو تائید اور مستقبل کے اچھے امکانات دکھائے جانے کا خواہاں تھا، زولشے نتسن کی مسلسل تنقید سے مفاہمت نہیں کر سکا اور یوں زولشے نتسن کی آخری بڑی کتابیں ”سُرخ پہیہ“ اور ”رُوس کا راستہ“ زیادہ قارئین تک نہ پہنچ سکیں۔ اِس کے باوجود اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زولشے نتسن بیس وِیں صدی کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔

Alexander Solschenizyn und Heinrich Böll
الیگذانڈر زولشے نتسن اپنے جرمن ادیب دوست ہائنرش بوئیل کے ہمراہتصویر: dpa - Bildfunk

امریکی شہر مَیڈی سَن میں مقیم پاکستان کے پروفیسر محمد عمر میمن گذشتہ 38 برسوں سے یونیورسٹی آف وِس کَونسن میں اردو، فارسی اور اسلامیات پڑھا رہے ہیں۔ وہ سالانہ جریدے اینوئل آف اُردو اسٹڈیز کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ادب پر بھی گہری نظر رکھنے والے محمد عمر میمن نے جو بے شمار تراجم کئے، اُن میں الیگذانڈر زولشے نتسن کے ناول دا کینسر وارڈ کے دو اَبواب بھی شامل ہیں۔

محمد عمر میمن نے زولشے نتسن کے فن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بتایا کہ زولشے نتسن کا ناول کینسر وارڈ پڑھتے ہوئے وہ حیران ہوئے تھے کہ آخر کیسے آٹھ نو سو صفحات کے اِس ناول کی نثر میں اتنی روانی ہے کہ جیسے ایک پُرسکون کشتی دریا پر رواں دواں چلی جا رہی ہو۔ اور جب اُنہوں نے اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو اُنہیں یہ پتہ چلا کہ زولشے نتسن نے سات آٹھ مرتبہ اِس ناول کو نئے سرے سے تحریر کیا تھا۔

محمد عمر میمن کے مطابق اُنہیں پورے اردو ادب میں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی، جس کا کسی بھی سطح پر زولشے نتسن کی شخصیت یا اُن کی تخلیقات سے موازنہ کیا جا سکتا ہو۔ حتیٰ کہ فیض احمد فیض کو بھی نہ تو زولشے نتسن جتنی تکالیف اٹھانا پڑیں اور نہ ہی چند ایک نظموں کو چھوڑ کر اُن کی شاعری میں کوئی ایسی چیز ہے، جسے اس روسی ادیب کی تخلیقات کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہو۔