ممبئی حملے، پاکستان کی تحقیقاتی رپورٹ
9 فروری 2009ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایف آئی اے کی تفتیش کی بنیاد پر اس بھیانک جرم میں شریک ملزمان کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق مقدمہ درج کر کے تفتیش کے عمل کو مزید آگے بڑھایا جائے گا اور اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ بھارت سے ٹھوس شواہد کی عدم فراہمی کے باعث تحقیقات کو مکمل کرکے مقدمہ قائم کرنا مشکل ہو گا اور یہ کہ تفتیش کے عمل کو مکمل کرنےکے لئے بھارت کو ایف آئی اے کی طرف سے اٹھائے گئے ان سوالات کا جواب بھی دینا ہو گا جو جلد ہی بھارتی حکام کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔
حکام کے مطابق تفتیش سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان یا بھارت میں نہیں بلکہ کسی تیسرے ملک میں تیار کی گئی ہے اور یہ کہ ان حملوں میں پاکستانی حکومت یا اس کا کوئی بھی ادارہ ملوث نہیں۔ اس حوالے سے سابق وزیر داخلہ حامد نواز کا کہنا ہے کہ:’’پہلے انہوں نے یہ کوشش کی کہ کہیں کہ یہ غیر ملکی عناصر ہیں تا کہ اگر یہ بات مان لی جاتی ہے تو دوسرے مرحلے میں یہ کہا جائے کہ غیر ملکی عناصر اتنا بڑا کام کیسے کرسکتے ہیں اس کے پیچھے ان کے ادارے آئی ایس آئی ملوث ہے اور ابھی انہوں نے بغیر ثبوت کے الزام دینا شروع کر دیا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کی منصوبہ بندی پاکستان یا بھارت میں نہیں بلکہ کہیں باہر ہوئی ہے تو بھارت کا ایک بہت بڑا جھوٹ سامنے آئے گا ۔‘‘
حامد نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ممبئی حملوں کے واحد زندہ ملزم اجمل قصاب کی حوالگی کا مطالبہ بھی کرنا چاہئے تا کہ پاکستانی ادارے اس سے تفتیش کر کے واقعے میں ملوث مزید افراد تک بھی پہنچ سکیں۔ مبصرین کے خیال میں بھارتی رہنمائوں اور حکام کے حالیہ ہفتے کے بیانات کو سامنے رکھا جائے تو پاکستانی رپورٹ پر ان کا رد عمل غالباً منفی ہو گا کیونکہ بھارتی قیادت نے اپنی تفتیش پر مبنی جو دستاویز پیش کر رکھی تھی وہ اسے ہی ملزمان کی حوالگی کے لئے کافی قرار دے رہی تھی۔