1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملالہ کی کتاب: پاکستانی نجی اسکولوں نے پابندی لگا دی

مقبول ملک10 نومبر 2013

پاکستان میں نجی اسکولوں کے انتظامی اداروں کی ملکی تنظیم نے طالبان کے خلاف اور بچوں، خاص کر بچیوں کے تعلیم کے بنیادی حق کے لیے جدوجہد کرنے والی ملالہ یوسفزئی کی کتاب ’میں ملالہ ہوں‘ پر پابندی لگا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AEvB
تصویر: Getty Images

اسلام آباد سے موصولہ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اتوار کی سہ پہر ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے تمام نجی اسولوں میں ملالہ یوسفزئی کی اس کتاب پر یہ الزام لگاتے ہوئے پابندی لگا دی گئی ہے کہ پیدائشی طور پر سوات سے تعلق رکھنے والی اور اس وقت برطانیہ میں مقیم یہ نابالغ طالبہ ’مغربی دنیا کے ہاتھوں میں آلہء کار بنی ہوئی ہے۔‘

ملالہ یوسفزئی کو اس وقت عالمی توجہ ملی تھی جب گزشتہ برس سوات میں طالبان نے اسے ایک حملے میں سر میں گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ اس حملے کی وجہ ملالہ کی طرف سے طالبان کی مخالفت بنی تھی، جس میں اس کی ڈائریوں کی اشاعت نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

Malala Yousafzai in New York 10.10.2013
دنیا بھر میں ملالہ یوسف زئی کو لڑکیوں کی تعلیم کے حق کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہےتصویر: Reuters

بعد ازاں شمال مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی اس طالبہ نے اسی سال اکتوبر میں اپنی ایک خود نوشت سوانح عمری بھی جاری کر دی تھی، جو ملالہ کے ساتھ مل کر برطانوی خاتون صحافی کرسٹینا لیمب نے لکھی تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق I am Malala نامی اس کتاب کے بارے میں اب پاکستان کے نجی اسکولوں کے انتظامی اداروں کی ملکی تنظیم آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز مینیجمنٹ ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ’متنازعہ‘ کتاب کے اس تنظیم کے رکن تعلیمی اداروں کی 40 ہزار لائبریریوں میں رکھے جانے پر پابندی لگا دی جائے۔

پاکستانی نجی اسکولوں کی اس تنظیم کے صدر ادیب جاودانی نے اتوار کے روز بتایا کہ اس کتاب پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے کہ ملالہ مبینہ طور پر ’’پاکستان کی نہیں بلکہ مغربی دنیا کی نمائندگی کر رہی ہے۔‘‘

ملالہ یوسفزئی کا نام اس سال امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ یہ پاکستانی طالبہ اب پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی مخالفت اور بچیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے ایک عالمی ہیرو بن چکی ہے۔

تاہم منقسم رائے عامہ والے پاکستان میں اس طرح کی عوامی سوچ کی بھی کوئی کمی نہیں جس کے تحت ملالہ کی ساری جدوجہد ایک ’سازش‘ ہے اور اس پر عسکریت پسندوں کے حملے کا واقعہ بھی ’ایک ڈرامہ تھا، جس کا مقصد مغربی دنیا کے لیے ایک ہیرو کو وجود میں لانا تھا۔‘‘