1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ ملالہ ‘ ایک مثبت تحریک

فرید اللہ خان، پشاور10 اکتوبر 2013

ملالہ کو عالمی سطح پر پذیرائی ملنے سے صوبہ خیبر پختونخوا اور باالخصوص ملاکنڈ ڈویژن میں تعلیمی اداروں میں بچیوں کے داخلے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

https://p.dw.com/p/19xWv
تصویر: picture alliance / AP Photo

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم عاطف خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ” ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دو لاکھ سے زیادہ بچوں کی مختلف سکولوں میں انرولمنٹ ہوئی ہے۔ ان میں 75 ہزار بچیاں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب لوگوں کو بھی احساس ہورہا ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں۔ ملالہ کا واقعہ ایک افسوس ناک تھا دُعا ہے کہ پھر ایسا نہ ہو‘‘۔

محکمہ تعلیم سوات کے حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے جانے کے بعد اور ملالہ کی مہم کے نتیجے میں ملاکنڈ ڈویژن میں تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن حکومت تعلیمی اداروں میں ایک ہزار سے زائد خواتین اساتذہ کی کمی اور دو سو کمرے تعمیر کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے، جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں2011 کے بعد سکولوں میں داخلے کی شرح 34 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو گئی ہے۔

Schulkinder im Swat-Tal, Pakistan
سوات کے لوگ پُر امید ہیں کہ جلد یہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے پہلے کی طرح تعلیم کی روشنی پھیلائیں گےتصویر: Front Line Media/Nek Amal

دہشت گردوں نے صوبہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں آٹھ سو زیادہ سرکاری سکولوں کو تباہ کیا تھا۔ صرف ملاکنڈ ڈویژن میں دہشت گردوں نے 182سکول تباہ کیے تھے اور صوبائی حکومت ابھی تک صرف43 سکولوں کو دوبارہ تعمیر کر پائی ہے۔

دوسری جانب عالمی برادی کے تعاون سے درجنوں سکول فعال ہو چکے ہیں۔ سکولوں کو تباہ کرنے کے علاوہ ملاکنڈ ڈویژن میں طالبان اپنے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سے لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنےکی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ اس مہم کے نتیجے میں سوات کی تحصیل چار باغ میں چار سو زیادہ طالبات نے سکول چھوڑا تھا لیکن طالبان کے جانے کے بعد انہوں نے فوراً ہی تعلیم کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا۔ ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والی رُکن صوبائی اسمبلی نگینہ خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ” سوات پہلے بھی تعلیمی میدان میں آگے تھا کچھ عرصے کے لیے یہ سلسلہ رک گیا لیکن آج پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ سوات میں اور بھی ملالہ ہیں اور ہر لڑکی یہی چاہتی ہے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرکے ملالہ جیسی بن جائے‘‘۔

سوات کے بعض علاقوں میں آج بھی خوف کی فضاء قائم ہے اور یہی وجہ ہے کہ سوات کے لوگ کھل کر ملالہ پر بات نہیں کرتے لیکن کل کے دن ملالہ کو نوبل ایوارڈ ملنے کی دُعا ضرور کرتے ہیں۔

ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر تعلیم سردار حسین بابک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ملالہ پر حملے نے عوام میں تعلیم کی اہمیت مزید اُجاگر کی ہے”ملالہ پر حملہ ہوا تو اس سے پوری قوم کو یہ احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کو پڑھانا ہے۔ خواتین کی تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور ہمین یقین ہے کہ ایک دن ہمارے صوبے میں خواتین کی شرح خواندگی سو فیصد ہوجائے گی‘‘ ۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’خیبر پختونخوا ایک عرصے سے دہشت گردی کی زد میں رہا اور آج بھی ہے دہشت گرد جہاں بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے سینکڑوں تعلیمی اداروں کو بھی تباہ کیا ہے لیکن ہمیں اُمید کہ یہ دن جلد ہی گزر جائیں گے‘‘۔

Kainat Riaz
ملاکنڈ ڈویژن میں2011 کے بعد سکولوں میں داخلے کی شرح 34 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو گئی ہےتصویر: DW

سوات کے لوگ پُر امید ہیں کہ جلد ان کی وادی کا امن مکمل طور بحال ہو گا اور یہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے پہلے کی طرح تعلیم کی روشنی پھیلائیں گے۔ پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے طلبا و طالبات ملالہ کو اپنا آئیڈل کہتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ ملالہ ملک سے جہالت ختم کرنے اور تعلیمی میدان میں آگے جانے کی اپنے مشن میں کامیاب ہوجائے۔