ملائیشیا میں وسیع تر اقتصادی اصلاحات کا اعلان
30 مارچ 2010وزیر اعظم نجیب رزاق نے کاروباری اور تجارتی امور سے متعلق ’نیا اقتصادی ماڈل‘ نامی ایک کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ اقتصادی اصلاحات کا یہ پروگرام ملک میں جرات مندانہ اقتصادی تشکیل نو کا باعث ہو گا۔ اس پروگرام کے تحت ایسے اقتصادی منصوبوں کے تناسب میں کمی کر دی جائے گی، جن کی تکمیل میں تیز رفتار مقابلہ بازی ہمیشہ فیصلہ کن رہی ہے۔
نجیب رزاق کے بقول اب تک ملائیشیا میں کام کرنے والے اقتصادی نظام کی خاص بات اس میں تیز رفتاری پر دیا جانے والا زور رہا ہے۔ تاہم اس نظام سے زیادہ تر فائدہ ہمیشہ ہی اکثریتی ملائے آبادی کو پہنچا اور اس وجہ سے سرمایہ کاری بھی متاثر ہوئی اور بدعنوانی کو بھی ہوا ملی۔ اس کے برعکس نئی اصلاحات کی مدد سے سن 2020 تک ملائیشیا کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ ریاست بنایا جا سکے گا۔
برطانیہ میں تعلیم یافتہ 56 سالہ ماہر اقتصادیات نجیب رزاق نے اپنی حکومت کے معاشی اصلاحات کے اس پروگرام کی زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ اس اقدام نے کئی غیر جانبدار ماہرین کو اس بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے کہ آیا اس پروگرام پر بروقت عمل درآمد بھی ہو سکے گا۔
اس بارے میں ملائیشیا کے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ شروع میں ان کے اس پروگرام پر تنقید بھی کی جائے گی، تاہم طویل المدتی بنیادوں پر یہ اصلاحات ملائیشیا کی معیشت کو اس حد تک مضبوط بنا دیں گی کہ اس کی بین الاقوامی سطح پر حیثیت میں اضافہ یقینی ہو گا۔
کوآلالمپور حکومت کے اس منصوبے کی مکمل تفصیلات آئندہ جون میں جاری کی جائیں گی۔ اس منصوبے کے تحت سرکاری انتظام میں کام کرنے والی بہت بڑی تیل کمپنی پیٹروناس کی نج کاری اور کارکنوں کے پینشن فنڈ کے علاوہ کئی دیگر ملکی اداروں میں ریاستی ملکیتی حقوق بیچنے کا پروگرام بھی بنایا گیا ہے۔ اس طرح حکومت کو اربوں ڈالر کے برابر آمدنی ہو گی۔
نجیب رزاق کے معاشی اصلاحات کے اس پروگرام میں یہ ہدف بھی رکھے گئے ہیں کہ ملائیشیا میں سالانہ بنیادوں پر موجودہ اوسط فی کس آمدنی قریب سات ہزار امریکی ڈالر سے بڑھا کر دوگنا کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ سن 2020 تک ملکی معیشت میں ترقی کی سالانہ شرح بھی مزید اضافے کے ساتھ ساڑھے چھ فیصد تک کر دی جائے گی۔
کئی تجزیہ نگاروں نے اس بارے میں کم امیدی کا اظہار کیا ہے کہ وزیر اعظم نجیب رزاق ان اصلاحات پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکیں گے۔ اس لئے بھی کہ وہ ایک ایسے حکومتی اتحاد کے سربراہ ہیں جو گزشتہ 52 برسوں سے اقتدار میں ہے، مگر جس کی سیاسی طاقت اب قدرے کم ہو چکی ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک