1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے مانیٹر احتجاجاﹰ مستعفی

افسر اعوان4 جنوری 2016

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ مبصر نے اپنے عہدے سے احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے انہیں فلسطینی علاقوں تک کبھی رسائی ہی نہیں دی۔

https://p.dw.com/p/1HXmF
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini

اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق، ماکریم ویبیسونو نے انسانی حقوق کونسل کے صدر کو اپنا استعفیٰ جمع کرا دیا ہے۔ یہ استعفیٰ 31 مارچ 2016ء سے مؤثر ہو گا۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ویبیسونو نے جنہیں بطور غیر جانبدار ماہر ذمہ داریاں جون 2014ء میں سونپی گئی تھیں، ’’اس بات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان کے مینڈیٹ کے تمام عرصے میں اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک انہیں رسائی دینے میں ناکام رہا ہے۔‘‘

ویبیسونو کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’بدقسمتی سے، اسرائیلی قبضے والے علاقوں میں فلسطینی متاثرین کی زندگی بہتر کرنے کے لیے میری کوششیں ہر ایک قدم پر مایوسی کی وجہ بنیں۔‘‘

انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے سفارت کار ویبیسونو کے مطابق انہیں اس عہدے سے قبل اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک رسائی دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں نے یہ ذمہ داری اس فہم کے ساتھ لی تھی کہ اسرائیل مجھے بطور ایک غیر جانبدار اور معروضی مبصر کے طور پر مقبوضہ علاقوں تک رسائی دے گا۔‘‘ ان کے مطابق تاہم اسرائیل سے کی گئی مسلسل درخواستیں ناکام رہیں۔

جبکہ اس کے برعکس فلسطینی حکومت نے ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ’مکمل طور پر تعاون کیا‘۔

ماکریم ویبیسونو نے 2014ء میں غزہ کی خونریز جنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا
ماکریم ویبیسونو نے 2014ء میں غزہ کی خونریز جنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھاتصویر: REUTERS/M. Salem

اسرائیل کے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے UNHCR کے ساتھ طویل عرصے سے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ اسرائیل الزام عائد کرتا ہے کہ یہ ادارہ یہودی ریاست کے خلاف جانبدارانہ رویہ رکھتا ہے۔

ماکریم ویبیسونو نے یہ ذمہ داری امریکی پروفیسر رچرڈ فاک کے بعد سنبھالی تھی جنہیں یہودی ریاست کے طرزعمل کے بعد اس پر تنقید کے باعث واشنگٹن اور اسرائیل کی طرف سے اکثر مشکلات کا سامنا رہا۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم کردہ جن کمپنیوں میں اپنی مصنوعات تیار کر رہا ہے ان کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔

انڈونیشیا کے سفارت کار رچرڈ فاک کے مقابلے میں کم متنازعہ رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے 2014ء میں غزہ کی خونریز جنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے حملوں میں فلسطین میں عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت اور دیگر نقصانات سے اس بارے میں سنجیدہ تحفظات پیدا ہو رہے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین پر عمل پیرا ہے۔

آج پیر کے روز جاری ہونے والے بیان میں بھی انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف انسانی حقوق کی مسلسل اور مختلف طرح کی خلاف ورزیوں پر بھی شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔