1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی اور اسلامی دُنیا کو قریب لانے کی ایک نئی کوشش

8 ستمبر 2006

جمعرات سات ستمبر کو ترکی کے شہر استنبول میں جرمنی اور ترک وزرائے خارجہ کی سرپرستی میں مغربی اور اسلامی دُنیا کے درمیان مکالمت کو فروغ دینے کےلئے ایک بین الثقافتی سماجی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی، جسے ایک جرمن سیاستدان Ernst Reuterسے موسوم کیا گیا ہے۔ اِس سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان نے نازی سوشلسٹ دَور میں جلا وطنی اختیار کی اور اُسے ترکی میں سیاسی پناہ ملی تھی۔

https://p.dw.com/p/DYJr
جرمن وزیرِ خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر اور ترک وزیرِ خارجہ عبداللہ گل 7 ستمبر کو استنبول میں
جرمن وزیرِ خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر اور ترک وزیرِ خارجہ عبداللہ گل 7 ستمبر کو استنبول میںتصویر: picture-alliance / dpa

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان Ernst Reuter مغربی برلن کے پہلے میئر بنے تھے۔ جنگ سے پہلے نازی سوشلسٹوں کے دَورِ حکومت میں ترکی نے اُنہیں سیاسی پناہ دی تھی۔ اور جب وہ اپنی جلاوطنی کا یہ عرصہ گذارنے کے بعد واپس جرمنی آئے تو مخالفین نے اُن کے خلاف مہم میں یہ نعرہ بھی استعمال کیا تھا کہ کیا اب ایک ترک باشندے کو برلن کا میئر بنایا جائے گا؟

سات ستمبر جمعرات کے روز ترکی کے شہر استنبول میں جرمنی اور ترک وزرائے خارجہ کی سرپرستی میں مغربی اور اسلامی دُنیا کے درمیان مکالمت کو فروغ دینے کےلئے جس بین الثقافتی سماجی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی، اُسے اِسی جرمن سیاستدان یعنی ایرنسٹ روئٹر سے موسوم کیا گیا ہے۔

اِس پروگرام کے تحت اِس مثالی تصور پر زور دیا جائے گا کہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے انسان ایک آزاد اور روادار ماحول میں پُرامن طریقے سے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

جس واقعے کے باعث جرمنی اور ترکی کی حکومتوں کو یہ پروگرام شروع کرنے کا خیال آیا، وہ تھا، پیغمبرِ اسلام کے بارے میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں متنازعہ خاکوں کی اشاعت۔ یہ خاکے بعد ازاں یورپی اخبارات میں بھی مکمل یا جزوی طور پر شائع ہوئے۔ اِنہی متنازعہ خاکوں کے باعث کئی مسلمان ممالک میں پُر تشدد ہنگامے بھی ہوئے اور کئی ایک مسلمان ممالک کی حکومتوں اور مغربی دُنیا کے ممالک کے درمیان سفارتی تلخی کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ اور تو اور یہاں جرمنی میں حال ہی میں لوکل ٹرینوں پر بم حملوں کی ناکام کوششوں کے پیچھے بھی بنیادی طور پر یہی متنازعہ خاکے کارفرما تھے۔

ایک ممتاز جرمن اخبار کے ساتھ اپنے انٹرویو میں جرمن وزیرِ خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا تھا: یہ بات درست ہے کہ مکالمت کے فروغ کےلئے منعقد کئے جانےوالے اجتماعات کی مدد سے اِس طرح کے دہشت پسندوں کو حملوں سے روکا نہیں جا سکتا لیکن دوسری جانب یہ بات بھی یقینی ہے کہ عملی اور ٹھوس تعاون ہی طویل المدتی بنیادوں پر دہشت گردی کےخلاف جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اِس سال فروری ہی میں جرمن وزیرِ خارجہ شٹائن مائر اور ترک وزیرِ خارجہ عبداللہ گل نے جرمن اخبار Bild اور ترک اخبار حریت میں اپنے مضامین میں مسیحی اورمسلمان باشندوں کو مخاطب کرتے ہوئے اِس امر کی وَکالت کی تھی کہ ایک دوسرے کی جانب احترام اور رواداری کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ یہی وہ پیغام تھا، جو کل ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ ایک شاندار تقریب میں جمع سیاستدانوں، محققین، فنکاروں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے بھی دیا۔ ایرنسٹ روئٹر پروگرام کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ، اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر تعاون اور اشتراکِ عمل کو تیز تر کرتے ہوئے یہ دکھایا جائے کہ مکالمت کو صحیح معنوں میں عملی شکل کیسے دی جا سکتی ہے۔

اِس پروگرام کو معروف اداکاروں، جیسے کہ ماریو آڈورف اور رینان ڈے مِرکان کی بھی تائید و حمایت حاصل ہے۔ 1955ء میں انقرہ میں پیدا ہونے والی اداکارہ ڈے مِرکان ثقافتوں کے مابین مکالمت کی اصطلاح سے زیادہ خوش نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اِسے انسانوں کے مابین مکالمت کا نام دیا جانا چاہیے۔ اُنہوں نے جرمن اور ترک شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ذرا دُنیا کو ایک دوسرے کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کیا کریں۔

اِس پروگرام کے سلسلے میں ڈوئچے وَیلے کا کردار بھی بہت اہم ہو گا۔ کل کی تقریب میں ڈوئچے وَیلے کے ڈائریکٹر جنرل ایرِک بیٹر مان نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ وہ ثقافتوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار ادا کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ اُن کے ادارے نے فوری طور پر ایک ترک پرائیویٹ چینل کے ساتھ مل کر ترک زبان میں ترکی کے لئے پروگرام تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ Bettermann نے کہا کہ مکالمت کی راہ میں زبان ایک بڑی رکاوٹ ہے، جسے دُور کرنا ہو گا۔