1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی افریقہ ملکوں کے دورے پر جرمن، فرانسیسی اور امریکی حکومتوں کے اعلیٰ نمائندے

عابد حسین27 اکتوبر 2014

جرمن اور فرانسیسی وزرائے خارجہ دو روزہ دورے پر افریقی ملک نائجیریا پہنچے ہوئے ہیں۔ اِس دورے کے دوران وہ ایبولا وائرس کے انسداد اور بوکو حرام کے خطرے کو خاص طور پر ابوجہ حکومت کے ساتھ گفتگو کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1DcjS
تصویر: picture-alliance/dpa/Bernd von Jutrczenka

جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر اپنے فرانسیسی ہم منصب لاراں فابیوس کے ہمراہ آج افریقی ملک نائجیریا پہنچے۔ اپنے دو روزہ قیام کے دوران وہ نائجیریا کی حکومتی عہدے داران کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ مغربی افریقی ملکوں کی اقتصادی تعاون کی تنظیم ایکوواس (ECOWAS) کے نمائندوں سے بھی ملیں گے۔ وہ نائجیریا میں مقامی حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ہمسایہ ملکوں میں پھیلی مہلک وبا ایبولا کے حوالے سے عالمی ریسپونس کو زیر بحث لائیں گے۔ نائجیریا کے وزیر خارجہ امینُو ولی نے دونوں وزرائے خارجہ کی آمد کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بات چیت مفید اور نتیجہ خیز ہو گی۔۔ ابوجہ میں اشٹائن مائر اور فابیوس نے سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔ مغوی اسکول کی طالبات کے خاندانوں کے ساتھ بھی وہ ملے۔

لاراں فابیوس اور فرانک والٹر اشٹائن مائر نائجیریا کے دارالحکومت ابوجہ میں قیام کے دوران حکومتی اہلکاروں کے ساتھ براعظم افریقہ کی اہم اقتصادیات کے حامل ملک نائجیریا کو درپیش سکیورٹی معاملات پر بھی بات کریں گے۔ نائجیریا کو انتہا پسند تنظیم بوکو حرام کی مسلح کارروائیوں کا سامنا ہے۔ جرمن اور فرانسیسی وزرائے خارجہ کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بوکو حرام کے کارکنوں نے اپنی تازہ ترین پُرتشدد کارروائیوں میں سترہ افراد کو ہلاک اور 30 نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اغوا کر لیا ہے۔ بوکو حرام تنظیم نے شمالی نائجیریا میں سن 2009 سے دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ برلن سے روانگی سے قبل جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ بوکو حرام کے غیر انسانی اور سفاکانہ دہشت گردانہ رویے کے خلاف نائجیریا کو اُن کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

Frank-Walter Steinmeier in Nigeria 27.10.
ابوجہ میں اشٹائن مائر اور فابیوس نے سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔ مغوی اسکول کی طالبات کے خاندانوں کے ساتھ بھی وہ ملےتصویر: picture-alliance/dpa/Bernd von Jutrczenka

اُدھر امریکا کی اقوام متحدہ میں مستقل سفیر سمانتھا پاور بھی مغربی افریقی ملکوں کے دورے پر ہیں۔ گنی کے دارالحکومت کوناکری میں حکومتی حکام سے ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ گنی کی حکومت ایبولا کی وبا سے نمٹنے کے لیے میڈیکل طلبا کو بھی نیشنل سروس میں شامل کر رہی ہے۔ پاور کے مطابق کوناکری حکومت نے ریٹائرڈ ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی طلب کر لیا ہے تا کہ ایبولا سے متاثرہ مریضوں کے علاج میں تساہلی نہ برتی جا سکے۔ امریکی سفیر اگلے دنوں میں سرا لیون اور لائبیریا بھی جائیں گے۔

گنی کے صدر الفا کونڈے کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو امریکی سفیر نے نہایت مثبت اور مفید قرار دیا۔ صدر کونڈے نے سمانتھا پاور کے ساتھ ملاقات میں ایبولا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے اپنی حکومت کے بڑے بڑے دعووں پر مبنی منصوبہ بندی کا تذکرہ بھی کیا۔ کونڈے نے بتایا کہ اُن کی حکومت ایبولا کے علاج کے مراکز (Ebola Treatment Units) سارے ملک میں قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سمانتھا پاور نے سارے ملک میں کھولے جانے والے مراکز کے لیے ہیلتھ ورکرز کی دستیابی کو ایک معمہ قرار دیا۔ امریکی سفیر نے کہا کہ ایبولا کو کنٹرول کے پروگرام کے حوالے سے اقوام عالم کا مجموعی ریسپونس اور ہیلتھ آرگنائزیشنز کا کردار صیحیح سمت میں دکھائی نہیں دیتا۔ پاور کے مطابق وہ تمام معلومات حاصل کر کے صدر اوباما کو پیش کریں گی کہ مغربی افریقہ میں ایبولا کو کنٹرول کرنے کی صورت حال کن حالات میں ہے۔