1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معروف ہسپانوی ادیب سیمپرون انتقال کر گئے

8 جون 2011

مشہور ہسپانوی ادیب اور بائیں بازو کے سرکردہ سیاسی رہنما خورگے سیمپرون 87 برس کی عمر میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ اسپین کے سابق وزیر ثقافت بھی تھے۔

https://p.dw.com/p/11Wib
خورگے سیمپرون

خورگے سیمپرون کی موت کی پیرس میں ان کے پوتے تھوماس لینڈ مین کے علاوہ میڈرڈ میں ہسپانوی وزارت ثقافت نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ ان کا انتقال پیرس میں ان کی رہائش گاہ پر ہوا۔ خورگے سیمپرون 10 دسمبر سن 1923 کو میڈرڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اسپین کے ایک سرکردہ سیاستدان کے بیٹے اور ایک سابق وزیر اعظم کے پوتے تھے۔

سیمپرون کا خاندان ہسپانوی خانہ جنگی کے آخری دنوں میں فرانکو نامی ڈکٹیٹر کے اقتدار میں آنے سے پہلے جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے فرانس منتقل ہو گیا تھا۔ اس ہسپانوی ادیب نے اپنی زیادہ تر زندگی فرانس ہی میں گزاری، جہاں چالیس کے عشرے کے شروع کے سالوں میں انہوں نے نازی جرمن قبضے کے خلاف مزاحمت میں شمولیت بھی اختیار کر لی تھی۔ بعد ازاں وہ گرفتار کر کے ایک نازی اذیتی کیمپ میں بھی بھجوا دیے گئے تھے۔

Deutschland Literatur Preis an Schriftsteller Jorge Semprun Spanien
خورگے سیمپرون، دائیں، سن 2007 میں جرمنی کی پوٹسڈام یونیورسٹی کی طرف سے دی گئی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری وصول کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: AP

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جب سیمپرون کو بُوخن والڈ کے نازی اذیتی کیمپ سے رہائی ملی تو ان کی منزل ان کے آبائی وطن کی بجائے دوبارہ فرانس ہی تھا۔ فرانس میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی مادری زبان ہسپانوی کی بجائے فرانسیسی زبان میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ خورگے سیمپرون عمر بھر بائیں بازو کے سیاسی نظریات کے قائل رہے اور انہوں نے کئی بڑی کامیاب فلموں کے اسکرین پلے لکھنے کے علاوہ بہت سے ڈرامے بھی لکھے۔ اس کے بعد کے سالوں میں وہ ہسپانوی ڈکٹیٹر فرانکو کی موت کے بعد اس وقت دوبارہ اسپین لوٹے جب وہاں جمہوریت کا آغاز ہوا تھا۔ پھر وہ اسپین کے وزیر ثقافت بھی بنے اور سن 1991 میں اس وقت ایک بار پھر پیرس لوٹے جب انہوں نے میڈرڈ حکومت میں وزیر ثقافت کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

خورگے سیمپرون کی سب سے مشہور تصنیفات میں سے The Great Journey اور What a Beautiful Sunday نامی ناول خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سن 1994میں انہیں جرمنی کی کتابی صنعت کی طرف سے امن کا انعام بھی دیا گیا تھا۔ ایک ادیب کے طور پر جو ایک سوچ سیمپرون کی تحریروں میں جگہ جگہ نظر آتی ہے، وہ نازی دور کے اذیتی کیمپ اور بُوخن والڈ کے نازی کیمپ میں ان کے ذاتی تجربات تھے۔

ان کی آخری تحریروں میں سے ایک بڑی تصنیف Writing or Life نامی وہ تخلیق تھی، جس میں انہوں نے ایک بار پھر نازی جرمنوں کی حراست میں اپنے تجربات قلم بند کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اصل مسئلہ اس مناسب لہجے کی دریافت ہے، جس میں ’ناقابل بیان کو بیان‘ کیا جا سکے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں