1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’معذوری کمزوری نہیں ہوتی‘ گیارہ سالہ نایاب

دانش بابر، صوابی17 اگست 2015

امریکی شہر لاس اینجلس میں ہونے والے اسپیشل اولمپکس گیمز میں پاکستان کے لئے کانسی کا تمغہ جیتنے والی گیارہ سالہ نایاب بی بی سمجھتی ہے کہ معذوری کوئی کمزوری نہیں ہوتی، اگر خود پر یقین اور بھروسہ ہو تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GGnZ
Nayab Bibi
تصویر: DW/D. Baber

خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والی نایاب بی بی پیدائشی طور پر ایک ہاتھ سے معذور ہے لیکن اس کمسن بچی نے معذوری کے باوجود کھیل کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کرتے ہوئے اسپیشل اولمپکس 2015ء میں دو سو میٹر کی دوڑ میں تیسری پوزیشن حاصل کرتے ہوئے کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ریلی ریس میں چوتھی جبکہ 100میٹر ریس میں چھٹی پوزیشن حاصل کی۔
نایاب کا کہنا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کو کھیل کود میں بھی دلچسپی تھی، جس کا موقع ملتے ہی اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا، ’’میں اپنے سکول (خصوصی بچوں کا اسکول) میں شروع ہی سے کھیلوں میں حصہ لیتی تھی، مسلسل محنت کی وجہ سے مجھے اسکول کی طرف سے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں کئی مقابلوں کے لئے بھیجا گیا، جس میں عمدہ کارکردگی کی بناء پر میں امریکا کے لئے سلیکٹ ہوئی۔‘‘


خصوصی بچوں کے اسکول میں تیسری جماعت کی طالبہ نایاب بی بی کہتی ہے کہ اس کو اسکول میں سکھایا گیا ہے کہ معذوری کو کبھی بھی رکاوٹ مت بناؤ، خود اعتمادی اور لگن سے ہر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے،’’اس بات پر عمل کرتے ہوئے میں نے پوری دنیا کے خصوصی افراد میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔‘‘ نایاب کے والد سمیع الحق اپنی بچی کی کامیابی سے بہت خوش ہیں، ان کے بقول، ’’نایاب بہت چھوٹی تھی، جب مجھے ڈاکٹر نے اس کی لا اعلاج بیماری کے بارے میں بتایا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ گیارہ سال بعد میری آنکھیں دوبارہ نم ہوگئیں، لیکن اس مرتبہ یہ نایاب کی کامیابی کی خوشی میں تھیں۔‘‘

Nayab Bibi
تصویر: DW/D. Baber


سمیع الحق کہتے ہیں کہ وہ ایک غریب دوکاندار ہیں، انہوں نے غربت میں بھی اپنی بچی کی ہر جائز خواہش پوری کرنے کی ہے، ’’مجھے کو فخر ہے کہ میری بیٹی نے معذور ی کے باوجود پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔‘‘ ان کے مطابق گو کہ اس معاشرے میں لڑکیوں کے کھیل کود میں حصہ لینے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن نایاب کے ساتھ، خاندان کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے لوگوں کی دعائیں اور پیار ہے، ’’نایاب مستقبل میں اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور پشتون لڑکیوں کے لئے ایک رول ماڈل ہو گی۔‘‘

نایاب بی بی کے بڑے بھائی عبداللہ کہتے ہیں کہ ان کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ان کی بہن امریکا تک جائے گی،’’ہم امریکا کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے، لیکن نایاب نے ثابت کردیا ہے کہ محنت سے ہر کام ہو سکتا ہے۔‘‘ عبداللہ کہتے ہیں کہ ان کو نہایت خوشی ہوتی ہے جب لوگ اس کی بہن کو ہیر یا چیمپئن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
تعلیم سے محبت اور لگاؤ کی وجہ سے نایاب نے اپنے میڈلز اور کامیابی آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہداء کے نام کردیے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔

نایاب کہتی ہے کہ وہ آئندہ بھی کھیل کے میدان میں پاکستان کی نمائندگی کر کے ملک کا نام روشن کرے گی۔ دوسرے معذور افراد کو مخاطب کرتے ہوئے نایاب کا کہنا تھا، ’’کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، اپنی معذوری کو بھلا کر اپنی تمام توجہ اپنے مقصد پر لگائیں، کامیابی یقینی ہوگی۔‘‘