1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معاشی بحران کے شکار مصر میں سعودی عرب کی دلچسپی کیوں؟

23 مارچ 2024

مصری نقادوں کا کہنا ہے کہ ایک صدی سے عرب دنیا کا ہالی ووڈ کہلانے والا ملک اب معاشی بحران کا شکار ہے اور سعودی عرب اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے قدامت پسندانہ تصور کو تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔

https://p.dw.com/p/4e3KQ
نومبر 2022 میں منعقد ہونے والا قاہرہ فلم فیسٹیول
فائل پکچرتصویر: Mohamed Asad/Xinhua/picture alliance

سعودی عرب کی فیاضی مصر کے ثقافتی منظرنامے کو کس نہج پر لے جائے گی، اس حوالے سے ملا جلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ کچھ لوگ تو دو بڑی علاقائی طاقتوں کے درمیان نئے تعاون کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن کچھ کو خدشہ ہے کہ ریاض مصر کی ثقافت پرغالب آسکتا ہے۔ تاریخی طور پر عرب دنیا کے بڑے ثقافتی دارالحکومت قاہرہ میں وزیر ثقافت نیوین الکیلانی نے حال ہی میں سعودی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ترکی الشیخ کی میزبانی کی۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان مصر پہنچ گئے

مصری وزارت ثقافت کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی الشیخ، کیلانی اور یونائٹڈ میڈیا سروسز کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا ہے جس میں ''تھیئٹر، سنیما اور موسیقی سمیت کئی شعبوں میں تعاون کیا جائے گا۔‘‘

سعودی درالحکومت ریاض میں موسیقی کا ایک مخلوط میلہ۔
 قدامت پسند سعودی مملکت نے اپنی سخت قدامت پسندانہ شناخت کو چھوڑ کر سماجی قوانین میں نرمی کرتے ہوئے موسیقی کے مخلوط میلے منعقد کرائے ہیں اور ملک میں سنیما گھروں کا افتتاح کیا گیا ہے۔تصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

ایک مصری نقاد مگدا خیراللہ کے مطابق، ''سعودی عرب آرٹ کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں قدامت پسندانہ تصور کو تبدیل کرنے کا خواہاں ہے اوریہ اس کی ایک اور مثال ہے۔‘‘

مصری ٹیلی ویژن پر شیخ نے معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ''یہ سب کے مفاد میں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم ایک ساتھ مل کر بہت آگے جاسکتے ہیں۔‘‘

 قدامت پسند سعودی مملکت نے اپنی سخت قدامت پسندانہ شناخت کو چھوڑ کر سماجی قوانین میں نرمی کرتے ہوئے موسیقی کے مخلوط میلے منعقد کرائے ہیں اور ملک میں سنیما گھروں کا افتتاح کیا گیا ہے۔

خیراللہ نے اے ایف پی کو بتایا، ''آپ راتوں رات آرٹ کے لیے ماحول نہیں بنا سکتے، اور یہیں مصری ٹیلینٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم مصر کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور میڈیا انڈسٹری بھی اس میں شامل ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ سعودی مفادات شراکت داری سے زیادہ غیر مساوی طاقت لیے ہوئے ہیں: ''تعاون اور فنانسنگ میں فرق ہے، تعاون میں دونوں فریق فن تخلیق کرتے ہیں، لیکن سعودی عرب ایسا نہیں کر رہا ہے، وہ ہمارا فن، فنکار اورموسیقی ایک قیمت پر حاصل کر رہا ہے۔‘‘

سعودی ڈی جے خواتین روایتی تھاپ کو بدلتے ہوئے

سعودی مالی اعانت سے چلنے والی پروڈکشن سے مصری فنکاروں کو بھی براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے، بشمول تھیئٹر ڈائریکٹرز اور اداکار جو اب سعودی عرب میں ڈرامے بنا رہے ہیں۔

 لیکن خیر اللہ نے خبردار کیا کہ یہ دو دھاری تلوار بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''فنڈز کا ہونا بہت اچھا ہے، اس وقت تک جب اس کے ذریعے مصری فنکاروں پراپنے خیالات مسلط نہ کیے جائیں، ورنہ تو یہ صرف کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘‘

ف ن/ا ب ا (اے ایف پی)