1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں محرومی کے شکار صحرائے سینا کے بدو

31 مارچ 2010

مصر نے صحرائے سینا کے علاقے پر دوبارہ کنٹرول کے لئے اسرائیل کے ساتھ ایک جنگ لڑی تھی۔ لیکن آج قریب چالیس برس بعد بھی قاہرہ حکومت کے اس علاقے کے عوام کے ساتھ تعلقات کھچاؤ کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/Mj7K
صحرائے سینا کا اونٹ پر سفر کرتا ہوا ایک بدوتصویر: AP

صحرائے سینا کے بدو کہلانے والے زیادہ تر باشندے زراعت کے لئے نامناسب زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے مالک ہیں۔ ان کی گذر بسر بڑی مشکل سے ہوتی ہے اور ان کا رویہ ریاستی عدم توجہ کے خلاف شکایت سے عبارت ہوتا ہے۔

محرومی کے شکار ان باشندوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ اس صحرا کے کنارے سیاحوں کے لئے تعطیلاتی مقامات پر تو ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی بھرمار رہتی ہے۔ تاہم انہیں نہ تو اس آمدنی میں سے کوئی حصہ ملتا ہے اور نہ ہی حکومت ان کے لئے روزگار کی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

Strand in Sinai
صحرائے سینا کے ساحل سے لی گئی بدوؤں کی ایک بستی اور پس منظر میں پہاڑیوں کی ایک تصویرتصویر: picture-alliance / dpa

یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے باسیوں میں سے کئی ایک نے قیمتی سازوسامان، ہتھیاروں اور انسانوں کی سمگلنگ کرنا شروع کر دی ہے۔ اس سمگلنگ کے لئے صحرائے سینا کے اسرائیل اور غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے کے ساتھ سرحد کو استعمال کیا جاتا ہے۔

ان بدوؤں میں سے چند ایک تو عسکریت پسندانہ ذہنیت بھی اپنا چکے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کا مصری ریاست کے خلاف غصہ ہے، جسے وہ تقریبا ایک غیر ملکی طاقت سمجھتے ہیں۔

کئی سال پہلے بحیرہء احمر کے چند تعطیلاتی مقامات پر جو متعدد بم دھماکے ہوئے تھے، مصری حکام نے ان کا الزام بھی عسکریت پسندانہ سوچ رکھنے والے انہی اسلام پسند بدوؤں پر لگایا تھا۔ یہ بدو زیادہ تر صحرا ئے سینا کے شمال میں شیخ زوائد نامی اس صحرا ئی قصبے اور اس کے گرد و نواح میں رہتے ہیں، جہاں ہر طرف سرخ اور سنہری رنگوں والے وہ چھوٹے چھوٹے مکانات دکھائی دے دیتے ہیں جو اس علاقے کی پہچان ہیں۔

یہ بدو کھلم کھلا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ گھر بھی سمگلنگ سے ہونے والی آمدنی سے تعمیر کئے ہیں۔ شمالی صحرا ئے سینا میں بدوؤں کے سب سے بڑے قبیلے میں سے ایک ’سوارکا‘ نامی قبیلہ ہے، جس کے سربراہ کے ایک بھائی محمود سوارکا کہتے ہیں کہ تین عشروں سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر انہیں اپنے علاقے میں اب تک نہ تو پانی دستیاب ہے اور نہ ہی وہ کھیتی باڑی کر سکتے ہیں۔

اس قبائلی رہنما کا کہنا ہے کہ وہاں کے نوجوانوں کے لئے نہ تو حکومت نے کوئی منصوبے شروع کئے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی روزگار ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ محمود سوارکا کے بقول انہی حالات کی وجہ سے اس علاقے کے بہت سے لوگوں نے زندہ رہنے کے لئے سمگلنگ شروع کر دی۔

Dahar am Tag danach
ماضی میں صحرائے سینا کے چند ساحلی تعطیلاتی علاقوں کو بم حملوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھاتصویر: AP

قاہرہ حکومت نے اس علاقے میں سمگلنگ کے لئے استعمال ہونے والی سرنگوں اور انسانوں کی اسرائیل میں سمگلنگ روکنے کے لئے وہاں پر سیکیورٹی انتظامات کافی سخت کر دئے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک مقامی بدو آبادی خود کو باقی ماندہ معاشرے سے کٹا ہوا اور ترقی سے محروم تصور کرتی رہے گی، تب تک حکومت کے سمگلنگ کے خلاف کسی بھی طرح کے اقدامات کامیاب نہیں ہوں گے۔

صحرائے سینا کے ان بدوؤں کو یہ شکایت بھی ہے کہ مصر میں مجموعی قومی پیداوار کا تقریبا بارہ فیصد حصہ یوں تو سیاحت کی صنعت سی حاصل ہوتا ہے، لیکن بات اگر بنیادی حقوق اور سہولتوں کی ہو تو اس میں صحرائے سینا کے بدوؤں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

قاہرہ میں سیاسی اور عسکری علوم کے الاہرام مرکز کے ایک ماہر نبیل عبدالفاتح کہتے ہیں کہ مصر کی نوکر شاہی نے سینا کے خطے کو ہمیشہ ایک ایسے سرحدی علاقے کے طور پر دیکھا ہے، جہاں وہ صرف سلامتی کے انتظامات بہتر بنانا چاہتی ہے۔ نبیل عبدالفاتح کے بقول اس طرح مصری نوکرشاہی عملی طور پر سینا کے علاقے کو مصر کا حصہ سمجھتی ہی نہیں۔

صحرا سینا کے علاقے میں بدوؤں کے بڑے قبائل کی تعداد12 ہے اور وہاں کی مجموعی آبادی تقریبا چھ لاکھ بنتی ہے۔ اس علاقے پر 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ پھر 1973 کی جنگ کے بعد1979میں طے پانے والے ایک امن معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل نے یہ علاقہ مصر کو واپس کر دیا تھا۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں