1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی یوکرائن میں باغیوں کے الیکشن، تناؤ میں اضافہ

عاطف بلوچ2 نومبر 2014

مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغی آج لوہانسک اور ڈونیٹسک میں الیکشن کا انعقاد کر رہے ہیں۔ کییف اور عالمی برداری نے تناؤ کا باعث بننے والے اس انتخابی عمل کو مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dff9
تصویر: picture-alliance/epa/Y. Streltsov

مشرقی یوکرائن میں فعال باغیوں کی طرف ’خود ساختہ‘ الیکشن سے ایک روز قبل ہی ڈونیٹسک میں علیحدگی پسندوں کے حملوں میں چھ یوکرائنی فوجی ہلاک ہو گئے۔ قبل ازیں اس شورش زدہ علاقے میں جمعے کے دن ہونے والے ایسے ہی حملوں میں سات یوکرائنی فوجی بھی مارے گئے تھے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق جمعے اور ہفتے کے دن بھی باغیوں کے زیر قبضہ علاقے ڈوینٹسک کے طول و عرض میں فائرنگ اور شیلنگ کے واقعات رونما ہوتے رہے۔

ایک باغی رہنما نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ڈونیٹسک کے ہوائی اڈے پر قبضے کے لیے لڑائی بھی جاری ہے۔ ان حملوں کے لیے باغی اور کییف حکومت ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ منسک میں پانچ سمتبر کو باغیوں اور یوکرائنی حکومت کے مابین طے پانے والے فائر بندی کے ایک معاہدے کے تحت گزشتہ ہفتہ بھر قدرے پرسکون رہے تھے۔ تاہم اتوار کو منعقد کیے جا رہے باغیوں کے الیکشن کے موقع پر تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

Karte Ukraine mit Donezk und Luhansk Englisch
تصویر: DW

یاد رہے کہ مشرقی یوکرائن میں باغیوں کے ان انتخابات پر یورپی یونین، امریکا اور دیگر متعدد ممالک نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن منسک معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس سے قیام امن کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی۔

تاہم باغی مصر ہیں کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں اپنے الیکشن خود ہی کرائیں گے۔ اس الیکشن میں جیت کس کی ہو گی یہ بالکل واضح ہے۔ ڈونیٹسک میں الیگزینڈر ساخارشینکو جبکہ لوہانسک میں ایگور پلاٹنسکی کی فتح یقینی ہے۔ یہ دونوں روس نواز باغی رہنما ان مشرقی یوکرائنی علاقوں کو کییف اور یورپی یونین سے دور کرنا چاہتے ہیں۔

ڈونیٹسک کے چیف الیکشن کمیشن رومان لایاگن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ الیکشن انتہائی اہم ہیں کیونکہ یہ نہ صرف ہمیں خود مختاری دیں گے بلکہ کییف سے دور کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوں گے۔‘‘ روس نے کہا ہے کہ وہ ان انتخابات کو تسلیم کرتا ہے اور علاقے میں قیام امن کے لیے مقامی آبادی کے حق رائے دہی کا احترام کیا جانا چاہیے۔

ادھر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے ایک مرتبہ پھر روس سے یوکرائن کے معاملے میں تعاون کی درخواست کی ہے۔ شٹائن مائر نے کہا کہ ماسکو حکومت کو چاہیے کہ وہ اُن تمام وعدوں پر عمل کرے، جو اُس نے یوکرائن کی خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ کے حوالے سے کیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ روس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ یورپ سے کس طرح کے تعلقات چاہتا ہے۔

لوہانسک اور ڈونیٹسک میں روس نواز باغیوں کی جانب سے کرائے جانے والے انتخابات کے تناظر میں شتائن مائر نے مزید کہا کہ ماسکو حکام کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ یوکرائن کے تنازعے کے حوالے سے منسک میں طے پانے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ لوہانسک اور ڈونیٹسک میں روس نواز باغیوں کی جانب سے کرائے جانے والے انتخابات کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔