1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی، پاکستان اور ترکی سرگرم

عبدالستار، اسلام آباد
9 جون 2017

پاکستان اور ترکی نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری سفارتی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2eQAF
Symbolbild - Katar - Flagge
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف اس سلسلے میں کویت اور قطرکا دورہ بھی کر سکتے ہیں، جہاں وہ دوحہ اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان میں سرکاری طور پر اس کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی یہ طے نہیں ہے کہ نواز شریف یہ دورہ کب کریں گے۔ ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ وزیرِ اعظم یہ دورہ جلد ہی کریں گے۔ اس کشیدگی کو کم کرانے میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے جب ڈی ڈبلیو نے ن لیگ کے ایک اہم مرکزی رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق سے رابطہ کیا، تو انہوں نے بتایا، ’’ترکی نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستان سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور ممالک نے بھی پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان اس حوالے سے مشاورت بھی چل رہی ہے اور کویت بھی کوششیں کر رہا ہے۔کچھ اور ممالک بھی ان کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
معروف تجزیہ نگار اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر اسامہ بن جاوید نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نواز حکومت کے قطر کی حکومت سے بہت قریبی تعلقات ہیں ۔ موجودہ حکومت نے دوحہ سے ایل این جی سمیت کئی معاہدے کئے ہیں، جو پاکستان کے لیے معاشی طور پر بہت اہم ہیں۔ پاکستان کی فوج کے لوگ پہلے ہی اس عسکری اتحاد کا حصہ ہیں۔ تو پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کوئی مصالحتی کردار اد ا کر سکے لیکن پاکستان کو بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اسلام آباد اس کشیدگی کو کم کرنے میں اس لیے دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ کشیدگی کی صورت میں حکومتِ پاکستان بہت مشکل پوزیشن میں آجائے گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اس بارایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات واقعی قطر کو سخت سبق سکھانا چاہتا ہیں اور ٹرمپ کے دورے کے بعد ان کے خیال میں اب قطر کو دیوار سے لگانا کوئی زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ لیکن دوحہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایران کو تنہا کرنے میں دوسری عرب ریاستوں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ ایران سے اس کے قریبی اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ سخت سعودی رویے کے پیشِ نظر پاکستان کو چاہیے کہ وہ کویت اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو افہام وتفہیم سے حل کرائے۔‘‘

Airbus A380 von Qatar Airways
متعدد خیلجی ریاستوں نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیںتصویر: Airbus - photo by master films/ H. Goussé

تجزیہ نگار صابر کربلائی کے خیال میں اس مسئلے کو فوری طور پر او آئی سی میں لے جایا جانا چاہیے۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کچھ خلیجی ممالک قطر کے قدرتی ذخائر میں نظر رکھے ہوئے ہیں اور دوحہ ان کو یہ ذخائر لوٹنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا۔ اس لیے قطر کے خلاف سازشیں کی گئی۔ میرے خیال میں پاکستا ن اور ترکی نے بہتر طرزِ عمل اختیار کیا ہے۔ خصوصا ترکی نے بہت مثبت کام کیا اور قطر کو تنہا نہیں چھوڑا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سعودی عسکری اتحاد کو اگر چھوڑ نہیں سکتا تو فی الحال اسے معطل کرے اور ترکی کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو او آئی سی میں لے جائے۔ فوری طور پر کوئی سیاسی مذاکرات کا راستہ ہم وار کیا جائے تاکہ مسلم ممالک کی اس کشیدگی سے جان چھوٹ سکے ۔