1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسظٰی میں یہودی آبادکاری قیام امن میں رکاوٹ: میرکل

27 اگست 2009

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج برلن میں اسرائیلی وزیر اعظم بن يامين نيتن ياہو کوکہا کہ فلسطينی علاقوں ميں يہودی بستيوں کی آبادکاری کو روکنا مشرق وسطی امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے لئے انتہائی اہم ہے۔

https://p.dw.com/p/JJZ7
میرکل اور نیتن یاہو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: AP

اسرائيلی وزير اعظم بن يامين نيتن ياہو کے جرمنی کے دو روزہ دورے کا آج آخری دن ہے۔ کل انہوں نے صدر ہورسٹ کوہلر سے ملاقات کی اور آج انہوں نے وزيرخارجہ اشٹائن مائر اور چانسلر ميرکل سے بات چيت کی۔ جرمن رہنماؤوں کے ساتھ نيتن ياہو کی بات چيت ميں مشرق وسطی ميں قيام امن اور ايران کے ساتھ ايٹمی تنازعے کو مرکزی اہميت حاصل ہے۔

یورپ کا دورہ کرنے والے اسرائيلی وزير اعظم نيتن ياہو نے آج دوپہر برلن ميں جرمن چانسلر آنگيلا ميرکل سے ملاقات کی جس کے بعد دونوں رہنماؤوں نے ايک مشترکہ پريس کانفرنس سے خطاب کيا۔ اس موقع پر چانسلر ميرکل نے کہا: ’’ميں نے جرمنی کی طرف سے يہ واضح کرديا ہے کہ مشرق وسطی ميں امن کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے يہودی بستيوں کی تعمير روکنا ضروری ہے۔‘‘

Bundeskanzlerin Angela Merkel und der israelischen Ministerpraesident Benjamin Netanjahu
جرمن چانسلر اور اسرائیلی وزیراعظم کانفرنس کے بعد خوشگوار موڈ میںتصویر: AP

چانسلر ميرکل نے کہا کہ انہيں يہ علم ہے کہ يہودی بستيوں کی تعمير کو روکنا داخلی سياسی اعتبار سے اسرائيلی حکومت کے لئے آسان نہيں ہے ۔ليکن ايک نئی اسرائيلی حکومت، ايک نيا امريکی صدر، اور امريکہ اور يورپی يونين کے مابين بہت قريبی تعاون اور آگے بڑھنے کی خواہش، يہ مشرق وسطی ميں قيام امن کے لئے بہت اچھے تاريخی مواقع ہيں۔

جرمن چانسلر نے ايران کے ساتھ ايٹمی تنازعے کے بارے ميں کہا کہ اگر ايران نے عالمی برادری کی طرف سے پيش کردہ تجاويز کا ستمبر تک کوئی تسلی بخش جواب نہيں ديا تو پھر اس کے خلاف پابنديوں ميں اضافے پر غور کرنا پڑے گا۔امريکی صدر اوباما نے ايران کوتجارتی مراعات کے لئے چھ فريقی مذاکرات کی پيشکش کی ہے جن کی شرط يہ ہے کہ ايران جوہری افزودگی کا پروگرام ختم کردے۔ اگر ايران ستمبر تک اس پيشکش کو قبول نہيں کرتا تو اس پر عائد پابندياں اور زنادہ سخت کردی جائيں گی۔

اطلاعات کے مطابق اسرائيل ميں ايران کے ايٹمی پروگرام کو روکنے کا غالباً صرف ايک ہی طريقہ کارگر سمجھا جارہا ہے اور وہ ايرانی ايٹمی تنصيبات پر فوجی حملہ ہے۔ ربع صدی قبل اسرائيل نے عراق کی ايٹمی تنصيبات پر اسی قسم کا حملہ کيا تھا۔

جرمن پارليمنٹ ميں کرسچن يونين جماعتوں کے خارجہ امور کے ترجمان فان کلائڈن کا کہنا ہے کہ ’’ايران کے توسيع پسندانہ عزائم اور حماس اور حزب اللہ جيسی دہشت گردتنظيموں کےساتھ اس کے روابط کی وجہ سے عرب ملک بھی ايران کے ايٹمی پروگرام سے خطرہ محسوس کررہے ہيں۔‘‘ ماہرين کے مطابق اس سلسلے ميں عرب ملکوں اور اسرائيل کے درميان تعاون پايا جاتا ہے اور درحقيقت ايران کے خلاف ايک اتحاد بن چکا ہے۔

اسرائيلی سرکاری ريڈيو نے برطانوی اخبار گارجين کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائيل،ايران پر عائد اقتصادی پابنديوں کوزيادہ سخت کرنے کے بدلے ميں دريائے اردن کے مغربی کنارے پر يہودی بستيوں کی تعمير کو انک محدود عرصے کے لئے روکنے پر رضامند ہوسکتا ہے۔ ادھر فرانسيسی صدر سارکوزی نے کہا ہے کہ اگر ان بستيوں کی تعمير جاری رہی تو مشرق وسطی ميں امن قائم نہيں ہوسکتا۔

اسرائيلی وزير اعظم نيتن ياہواپنے جرمنی کے دورے ميں برلن کے مضافات ميں اس جگہ بھی جائيں گے جہاں نازی حکام نے سن 1942 ميں مشہور وان زے کانفرنس کے دوران يورپی يہوديوں کے قتل عام کا منصوبہ بنايا تھا۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی