1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ، بارہ ملین بچے تعلیم سے محروم

عاطف بلوچ15 اپریل 2015

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں تعلیمی شعبے میں بہتری کی کوششوں کے باوجود بارہ ملین سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان اعداد وشمار کو پریشان کن قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F8kc
تصویر: picture-alliance/dpa

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے بدھ کے دن ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مشرق وسطیٰ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران بچوں کی تعلیم کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اس خطے میں اسکولوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ ان اعداد و شمار میں عراق اور شام میں جاری تنازعات سے متاثر ہونے والے بچوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اگر ان بچوں کا بھی شمار کیا جائے تو تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد پندرہ ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ یونیسف اور یونیسکو کے مشترکہ تعاون سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ میں البتہ تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقوم اور سیاسی عزم کی ستائش کی گئی ہے۔

Syrien Fußball Kinder Straße Aleppo
ن اعداد و شمار میں عراق اور شام میں جاری تنازعات سے متاثر ہونے والے بچوں کو شامل نہیں کیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/EPA Jm Lopez

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران پرائمری اسکول جانے والے بچوں کی تعداد ڈرامائی طور پر گر کر تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پرائمری تعلیم حاصل کر سکنے والی عمر کے 4.3 ملین بچے اور لوئر سکینڈری سطح پر تعلیم حاصل کر سکنے والی عمر کے 2.9 ملین بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 5.1 ملین بچے پری پرائمری تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ یوں ایسے بچوں کی مجموعی تعداد 12.3 ملین بن جاتی ہے۔

غربت کے علاوہ دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں

مشرق وسطیٰ کے 9 ممالک میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں غربت کے علاوہ دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں۔ بہت سے واقعات میں والدین اسکولوں کے اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ ان اخراجات میں کتابیں اور یونیفارم خریدنا بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ان کی آمدنی بھی کم ہو جاتی ہے کیونکہ اسکول جانے کے نتیجے میں بچے مشقت کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر کیسوں میں غریب اور دیہی علاقوں میں سکونت پذیر بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس تناظر میں صنفی امتیاز بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ والدین سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو بڑے ہو کر نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ان کا تعلیم حاصل ضروری نہیں ہے۔ یونیسف کے مطابق اسکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی پڑھائی کا تسلسل ایک انتہائی اہم امر ہے کیونکہ ان تمام ممالک میں اسکول چھوڑ دینے والوں بچوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ نے اس تناظر میں تین تجاویز بھی دی ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ کے بچوں کو بنیادی تعلیم کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ ان تجاویز میں بچوں کی ابتدائی عمر کی نشوونما پرتوجہ مرکوز کی جائے کیونکہ مشرقی وسطیٰ میں بالخصوص غریب طبقے میں پری پرائمری اسکولنگ کا رواج انتہائی کم ہے۔ اس کے علاوہ دوسری تجویز یہ ہے کہ والدین اور بچوں کو اسکول میں داخلے کے لیے تقویت دی جائے۔ تیسری اور آخری تجویز میں تعلیمی شعبے کے ماہرین اور متعلقہ حکومتی اہلکاروں سے کہا گیا ہے کہ جب ایک بچہ اسکول میں داخلہ لے لیتا ہے تو ہر ممکن کوشش کی جائے کہ وہ کسی مرحلے میں اسکول چھوڑ کر نہ جائے۔