مشرق وسطٰی میں یہودی آبادی: اوباما کی آج نیتن یاہو اور عباس سے ملاقات
22 ستمبر 2009مشرق وسطی کے لئے امريکی صدر باراک اوباما کے خصوصی ايلچی جارج مچل اِس خطے کے ايک اور لاحاصل دورے کے بعد 18ستمبر کو امريکہ واپس پہنچ گئے۔ دريائے اردن کے مغربی کنارے پر يہودی بستيوں کی تعمير روکنے کے سوال پر انہيں فلسطينی صدر محمود عباس اور اسرائيلی وزير اعظم بنيامين نيتن ياہو کے مابين سمجھوتہ کرانے ميں کاميابی نہيں ہوسکی۔ دونوں فريقوں نے مچل سے بات چيت کے بعد کہا کہ امريکی صدر سے ان کی ملاقات کا امکان بہت کم ہے۔ نيتن ياہو نے ايک ٹيلی وژن انٹرويو ميں کہا کہ انہيں اس ملاقات سے کتنی کم دلچسپی ہے: ’’ملاقات کا کوئی پروگرام نہيں ہے ليکن مجھے اس کی اميد ضرور ہے۔ ميں نےاس ملاقات کی درخواست نہيں کی ہے اور نہ ہی اس کے لئے کسی قسم کی شرائط رکھی ہيں۔ اگر امريکی اور فلسطينی صدور مجھ سے ملنا چاہتے ہيں تو ٹھيک ہے اور اگر نہيں ملنا چاہتے تو نہ مليں۔‘‘
تاہم وہائٹ ہاؤس کے اس اعلان کے بعد کہ فلسطينی صدر ،امريکی صدر اور اسرائيلی وزير اعظم کے درميان ملاقات ہوگی،نيتن ياہو کے ايک ترجمان نے کہا کہ اسرائيلی وزير اعظم يہ دعوت بخوشی قبول کرتے ہيں۔ ايک بڑے اسرائيلی اخبار ہاریتس کے مطابق نيتن ياہو کے ايک مشير نےکہا کہ جيسا کہ نيتن ياہو چاہتے تھے يہ ملاقات کسی قسم کی پيشگی شرائط کے بغير ہوگی۔ فلسطينی صدر محمود عباس نے اب تک يہ موقف اختيار کيا تھا کہ وہ اسرائيلی وزير اعظم نيتن ياہو سے صرف اس صورت ميں ملاقات کريں گے جب ان کی حکومت يہودی بستيوں کی تعميرروک دے۔
اسرائيلی وزير اعظم نيتن ياہو اور فلسطينی صدر محمود عباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ميں شرکت کے لئے نيو يارک پہنچ رہے ہيں اور امريکی صذر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہيں۔ وہ پہلے نيتن ياہو اور محمود عباس سے الگ الگ مليں گے اور پھر تينوں کی مشترکہ ملاقات ہوگی۔ اوباما 22 ستمبر کی ان ملاقاتوں ميں يہودی بستيوں کی تعمير کے سوال پراچانک کوئی سمجھوتہ کرانے ميں اپنے نمائندے مچل ہی کی طرح غالباً کامياب نہيں ہو سکيں گےبلکہ اس ملاقات کی نوعيت علامتی زيادہ ہوگی۔ اوباما فلسطينيوں اور اسرائيليوں کے درميان تنازعے کو حل کرنے کے لئے اپنے مضبوط عزم کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہيں۔
رپورٹ: سباستيان اينگل بريشت /شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی