1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی پارٹی اجلاس

امتیاز گل ، اسلام آباد27 جنوری 2009

اجلاس کے بعد ایک بریفنگ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لب و لہجہ سے عیاں تھا کہ وہ معزول ججوں کی بحالی، صدارتی اختیارات میں کمی اور میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کےلئے پیپلز پارٹی کو مزید وقت دینے کے موڈ میں نہیں۔

https://p.dw.com/p/GhH9
سابق وزیر اعظم پاکستان اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریفتصویر: AP

مسلم لیگ ن کی پالیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد بریفینگ میں میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی اور خصوصاً صدر آصف زرداری کی وعدہ خلافیوں کا ذکر کرتے ہوئے تبدیلی کو ناگزیر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سترھویں ترمیم کی موجودگی میں پارلیمان بااختیار نہیں ہو سکتی اور اسی لئے ان کی جماعت نے سترھویں ترمیم کے خاتمے کے لئے اٹھارویں ترمیم کا مسودہ پیپلز پارٹی کے حوالے کر رکھا ہے جسے ان کے خیال میں بلا تاخیر منظور ہو جانا چاہئے ۔نواز شریف کے بقول وہ حکومت سے کچھ نہیں چاہتے صرف جائز حقوق اور پارلیمانی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

’’پوری قوم کو آج باہر آنا چاہئے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کرنی چاہئے اس کا نقطہ آغاز ججوں کی بحالی ہے یہ پہلا زینہ ہے کہ جج بحال ہوں گے توہم اگلی منزل کی جانب بڑھیں گے اگر یہ بحال نہیں ہوتے تو پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘‘ نوازشریف نے کہا ’’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو ہو گیا سو ہو گیا اب آگے بڑھا جائے ۔ آگے چلیں، آگے ہے کیا کہ چلیں۔ آگے تو کھائی ہے‘‘۔

اس موقع پر پارلیمانی پارٹی کے فیصلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اس مقصد کی تکمیل میں وکلاء تحریک کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا ۔

’’ہم 9 مارچ کو وکلاء کے لانگ مارچ کو پوری طرح سپورٹ کریں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن ہر طرح سے ان کی مدد کرے گی اور پھر ہم عدلیہ کو 2نومبر والی پوزیشن پر بحال کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ‘‘۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اب روایتی سیاسی رسہ کشی کا روپ دھارتی جا رہی ہے اور دونوں اطراف سے اس کی پیش بندی بھی جاری ہے اس سلسلے میں حکومت نے پیر کے روز ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں شامل کر کے نئی سیاسی صف بندی کا عندیہ بھی دیا ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نئی صف بندی کا مقصد پنجاب حکومت پر دباؤ بڑھانا یا اس سے مکمل چھٹکارہ حاصل کرنا ہو سکتا ہے لیکن اس حوالے سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورتحال میں مسلح افواج مکمل طور پر غیر جانبدار رہ کر سیاسی لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اقتدار کی رسہ کشی کا نظارہ کریں گی یا اس کا حصہ بنیں گی۔