1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاٹیاز کا ’مسلم اشتہار‘، گوشت کہاں گیا؟

شمشیر حیدر Jo Harper
21 فروری 2018

ایک جرمن کمپنی نے اپنی ویجیٹیرین جیلی کی تشہیر کے لیے باحجاب خاتون کی تصویر استعمال کی جس کے بعد اسے جرمن سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ناراض ہونے والے لوگ کون ہیں؟

https://p.dw.com/p/2t3WR
Katjes-Werbung zeigt Model mit Kopftuch
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken

جنوری میں کاٹیاز کمپنی نے اپنی ویجیٹیرین پراڈکٹ کی تشہیری مہم میں ایک باحجاب خاتون کی تصویر استعمال کی تو شاید انہیں شدید ردِ عمل کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممکنہ ردِ عمل کو پیش نظر رکھتے ہوئے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا۔

عام طور پر ایسے میٹھے میں جیلیٹین ہوتی ہے جس کی وجہ سے ویجیٹیرین اسے نہیں کھاتے اور حلال نہ ہونے کے سبب مسلمان بھی اس سے اجتناب برتتے ہیں۔ جرمنی میں گوشت نہ کھانے والے افراد کی تعداد بھی اچھی خاصی  ہے اور لاکھوں مہاجرین کی آمد کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

کاٹیاز کے لیے یہ اشتہار تشہیری کمپنی انتونی نے تیار کیا تھا۔ اشتہار میں دکھائی جانے والی ماڈل کا نام ویسیدکا پیٹرووچ ہے جو خود نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی عام زندگی میں وہ حجاب پہنتی ہیں۔ اس حوالے سے تشہیری کمپنی اور ماڈل نے کوئی بھی بیان دینے سے انکار کیا۔

تاہم کاٹیاز کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ خالص تجارتی مقاصد کے لیے تیار کردہ اشتہار ہے اور اس کی مدد سے اپنی مصنوعات کے بارے میں متنوع جرمن مارکیٹ میں نئے صارفین تک معلومات پہنچانا تھا۔

تنقید کون کر رہا ہے؟

توقع کے مطابق سب سے پہلا ردِ عمل دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی کی جانب سے سامنے آیا۔ لیکن اس اشتہار پر حقوق نسواں کے لیے سرگرم افراد اور مسلمان خواتین کی جانب سے بھی تنقید کی گئی۔ تاہم کچھ مسلمان خواتین نے اس اشتہار کو حوصلہ افزا بھی قرار دیا۔

اے ایف ڈی کے مطابق یہ اشتہار’خواتین پر جبر کی تشہیر‘ اور ’جرمنی کی اسلامائزیشن‘ کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ پارٹی کے ایک رکن پارلیمان فرانک پاسیمان نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’یہ اشتہار کیا پیغام دیتا ہے؟ یہ پراڈکٹ صرف حجاب پہننے والی خواتین خریدیں؟‘‘

دوسری جانب کئی مسلمان بھی اس اشتہار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے جرمنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن مارٹن لییونے نے اشتہار میں ’جعلی مسلمان‘ خاتون دکھانے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ’نسل پرستی پر مبنی سرمایہ داری‘ قرار دیا۔

مارکیٹنگ ایکسپرٹ اولیور ڈروسٹ کا کہنا ہے کہ مسلمان اور ویجیٹیرین صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے باحجاب ماڈل کو استعمال کرنا اچھا خیال تھا لیکن کمپنی کو اس سلسلے میں زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔