1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی جنرلز کے خلاف ریفرنسز، کیا احتساب ہوپائے گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
21 فروری 2018

پاکستان میں انسداد بدعنوانی کے ادارے کی طرف سے چار ریٹائرڈ آرمی افسران کے خلاف کرپشن ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کو سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں نے مثبت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیب کی ساکھ بہتر ہوگی۔

https://p.dw.com/p/2t5Kz
Rawalpindi Pakistan
تصویر: AP

انسدادِ بد عنوانی کے اس ادارے نے سترہ برس بعد اس کیس کو کھولا ہے۔ جن افراد کے خلاف ریفرنس کھولا جارہا ہے، ان میں سابق آئی ایس آئی چیف و سابق وزیر برائے ریلوے جنرل ریٹائرڈ جاوید اشرف قاضی اور تین دیگر ریٹائرڈ آرمی افسران بھی شامل ہیں۔
نیب کی اس کاروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ انہوں نے 2013ء میں نیب سے کہا تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف نیب قوانین کے تحت کارروائی کرے، ’’لیکن نیب نے کہا کہ اس کے قانون کے مطابق مشرف اور ریٹائرڈ آرمی افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ میں نے نیب کو دو خطوط اپریل دوہزار تیرہ میں لکھے تھے۔ نیب کے جواب کے بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ گیا جہاں سے یہ فیصلہ آیا کہ نیب ریٹائرڈ آرمی افسران کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ نیب کی طرف سے لکھے گئے خط کو بھی عدالت نے غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔‘‘
انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ مشرف نے خود اپنے دور میں نیب کے قوانین میں ترمیم کی تھی، جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ نیب ریٹائرڈ آرمی افسران کے خلاف ایکشن لے سکے، ’’مشرف نے پاک بحریہ کے سابق سربراہ منصور الحق کو بچانے کے لئے ان قوانین میں ترمیم کی تھی۔ ترمیم کے مطابق آرمی افسران ریٹائرمنٹ کے چھ مہینے بعد، آرمی ایکٹ کے ماتحت نہیں آتے، جس کے بعد ان کے خلاف نیب کارروائی کر سکتا ہے۔ مشرف نے پلی بارگین بھی متعارف کروائی تھی۔ تو اس ترمیم کے بعد منصور الحق کو ریلیف مل گیا۔ اسے امریکا سے لایا گیا اور یہاں پلی بارگین کے ذریعے انہوں نے اپنی خلاصی کر الی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انعام الرحیم نے کہا، ’’نیب کو معلوم تھا کہ وہ نیب قوانین کے تحت کارروائی کر سکتی ہے لیکن فصیح بخاری اور قمر الزمان نے جان بوجھ کر یہ کارروائی نہیں کی۔ اب میں ان دونوں سابق چیئرمینوں کے خلاف پہلے نیب میں جاؤں گا اور اگر نیب نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی، تو میں عدالت جاؤں گا۔ اس کے علاوہ میں جنرل مشرف اور دوسرے افسران کے خلاف بھی نیب میں جانے کی تیاری کر رہاہوں۔ مشرف نے آمدنی سے زیادہ اثاثے بنائے۔ اس کے صرف ایک اکاؤنٹ میں بیس لاکھ ڈالرز پڑے ہوئے تھے جب کہ اس کے علاوہ اس کے چھ اکاونٹس اور تھے۔‘‘
سابق وفاقی وزیرِ مملکت برائے صنعت و پیداوار آیت اللہ درانی نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک مثبت قدم ہے۔ نیب طاقتور جنرلوں کو تو نہیں پکڑ سکتی لیکن یہ ان جنرلوں کا اب احتساب کر سکتی ہے، جو سویلین اداروں میں کام کر چکے ہیں اور جنہوں نے کام کے دوران مال بنایا ہے۔ تاہم نیب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ جنرل اسد درانی، اسلم بیگ اور دوسرے لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن لے کیونکہ یہ قانون نوے کے دہائی میں بنا تھا۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں یہ قدم نیب کی بڑھتی ہوئی طاقت کا غماز ہے، ’’یہ ایک مثبت قدم ہے۔ نیب نے نواز شریف کے خلاف ضمنی ریفرنسز دائر کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ شہاز شریف اور نون لیگ کے دوسرے ارکان کے خلاف بھی نیب سرگرم ہوئی ہے۔ نیب کو سپریم کورٹ کا تحفظ حاصل ہے اور اب جنرلوں کے خلاف کارروائی میں آرمی چیف کی مداخلت مشکل ہے کیوں کہ وہ اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کر نا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مشرف کی بھی مدد نہیں کی۔ میرے خیال میں آنے والے وقت میں مزید ریٹائرڈ آرمی افسران کے خلاف بھی مقدمات اور ریفرنسز آسکتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں کئی حلقے یہ خیال کر رہے ہیں کہ ماضی کی طرح یہ ریفرنس بھی آرمی افسران کے خلاف آئی واش ثابت ہوگا لیکن انعام الرحیم کے خیال میں موجودہ سیاسی ماحول میں نیب اور عدالتوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا، ’’اگر نیب نے ایسا کیا تو لوگ کہیں گے کہ نیب کا سارا بس صرف سیاست دانوں پر چلتا ہے۔ لوگ عدالت کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اٹھائیں گے۔ تو میرے خیال میں نیب کو کارروائی کرنی پڑے گی اور یہ بھی امکان ہے کہ مزید ریٹائرڈ افسران کے خلاف بھی ریفرنسز کھلیں۔‘‘

Pervez Musharraf Rückkehr aus dem Exil
’’2013ء میں نیب سے کہا تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف نیب قوانین کے تحت کارروائی کرے‘‘تصویر: REUTERS
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید