مراکش پارلیمانی انتخابات: اسلام پسندوں کو لبرل عناصر پر فتح
8 اکتوبر 2016مراکش کے وزیر اعظم عبدالاله بنکیران کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (PJD) پانچ سال پہلے اُس وقت بے پناہ انتخابی کامیابی حاصل کرتے ہوئے برسرِاقتدار آئی تھی، جب عرب دنیا میں ہر طرف انقلابی تحریک ’عرب اسپرنگ‘ کے چرچے تھے۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق جمعہ سات اکتوبر کو منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (PJD) کو مراکش کی 395 رکنی پارلیمان میں 125 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ یوں اس جماعت کو2011ء میں منعقدہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بارہ نشستیں زیادہ ملی ہیں۔ خبر رساں اداروں نے یہ بات ملکی وزارتِ داخلہ کے حوالے سے بتائی ہے۔
حکمران اسلام پسندوں کی سب سے بڑی حریف جماعت آتھینٹیسٹی اینڈ ماڈرنٹی پارٹی (PAM) تھی، جو اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلسل اس رجحان کی محالفت کرتی رہی تھی کہ مراکش کا معاشرہ ’اسلامی‘ رنگ میں رنگا جا رہا ہے۔ اس جماعت کو محض 102 نشستیں مل سکی ہیں۔
ان دو بڑی جماعتوں کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ نشستیں ’استقلال‘ نامی جماعت نے حاصل کی ہیں، جس نے فرانس سے اپنے ملک کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس جماعت کے حصے میں 45 نشستیں آئی ہیں۔
2011ء میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (PJD) وہ پہلی ’اسلام پسند‘ جماعت تھی، جو مراکش کے قومی انتخابات جیتنے میں اور وہاں عنانِ اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ تب کامل اکثریت نہ ملنے کے باعث اس جماعت کو دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دینا پڑی تھی۔
پانچ سال قبل جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو اُس وقت کامیابی ملی تھی، جب عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مراکش کے فرمانروا شاہ محمد ششم کو اپنے ایسے کئی اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا تھا، جو آمرانہ حدوں کو چھونے لگے تھے۔ تب PJD کی کامیابی کے نتیجے میں امید کی جانے لگی تھی کہ اس شمالی افریقی ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی آئے گی۔ مبصرین کا کہنا اب یہ ہے کہ جب معاملہ خارجہ پالیسی جیسے اہم امور کا ہو تو فیصلہ کُن کردار اب بھی بادشاہ کا ہی ہوتا ہے، جس کا خاندان گزشتہ ساڑھے تین سو سال سے مراکش پر حکومت کرتا چلا آ رہا ہے۔
ان انتخابات میں ووٹرز کی شرکت کا تناسب 43 فیصد رہا۔ ’کونسل آف یورپ‘ کے مبصرین نے جمعے کو منعقدہ انتخابات کو شفاف تو قرار دیا ہے تاہم اس بات پر افسوس بھی ظاہر کیا ہے کہ ووٹروں کی رجسٹریشن کے موجودہ نظام اور انتخابات سے متعلق آگاہی کی مہم کے باعث انتخابات میں رائے دہندگان خصوصاً نوجوان ووٹرز کی شرکت کا تناسب 2011ء کے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ بڑھ نہیں سکا ہے۔