’مراکش میں جسم فروشی‘، فرانسیسی ہدایتکار عیوش کی نئی فلم
14 اپریل 20162015ء میں کان فلمی میلے میں دکھائی جانے والی اس فلم نے خاص طور پر عرب دنیا میں زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا کیونکہ جنس، جسم فروشی اور مرد اور عورت کا تعلق ایسے موضوعات ہیں، جن پر شاید ہی پہلے کبھی اتنے واشگاف انداز میں بات کی گئی ہو، جتنی کہ اس فلم میں کی گئی ہے۔ مراکش میں تو اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور کسی اور عرب ملک میں بھی شاید ہی اس کی نمائش ہو سکے۔ اب یہ فلم جرمن سینماؤں میں ریلیز ہو رہی ہے اور یہاں بھی اس پر کوئی ہنگامہ کھڑا ہو سکتا ہے۔
اس فلم میں مراکش کے ایک صحرائی علاقے کا ایک ایسا پُر تعیش مقام دکھایا گیا ہے، جہاں لوگ جشن منا رہے ہیں، شراب پی رہے ہیں، رقص کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ رومانس بھی کر رہے ہیں۔ بادی النظر میں یہاں سکون اور اطمینان کی فضا ہے لیکن مردوں اور عورتوں کے تشخص میں واضح فرق ہے۔ یہاں موجود خواتین جسم فروشی کرتی ہیں جبکہ اُن کے گاہک بڑے شہروں کے امیر کبیر افراد یا پھر خوشحال سعودی باشندے ہیں۔
یہ فلم دکھاتی ہے کہ کیسے اُن کا ساتھی اور پہریدار ان چاروں کو ایک گاڑی پر اکٹھے یا ایک ایک کر کے مختلف مقامات پر لے جا کر چھوڑتا ہے اور پھر انہیں وہاں سے لیتا ہے۔ اس دوران یہ چاروں خواتین اپنی زندگی، اپنی ملازمت اور اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں خوب باتیں کرتی ہیں۔ فلم بین پر بہت جلد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان خواتین کی ہنسی نمائشی ہے اور اُن کے لیے حقیقت سے فرار کا کام دیتی ہے۔ اُنہوں نے گویا اپنے ارد گرد ایک حفاظتی دیوار بنا رکھی ہے ورنہ وہ شاید اپنی اس زندگی کو برداشت ہی نہ کر پائیں۔
اس فلم کو مراکش میں یہ کہتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ اس میں مراکش کی خواتین کی توہین کی گئی ہے۔ باقی عرب دنیا کی طرح مراکش میں بھی جسم فروشی ایک ممنوعہ موضوع ہے لیکن دوسری طرف عرب دنیا کے بہت سے افراد اس ملک کی اسی شہرت کی وجہ سے اس شمالی افریقی ملک کے سفر پر جاتے ہیں۔
ہدایتکار نبیل عیوش فرانس ہی میں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ تیونس کی یہودی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ باپ مراکش سے تعلق رکھنے والا ایک مسلمان ہے۔ اس فلم کی نمائش کے بعد سے نہ صرف عیوش کو قتل تک کی دھمکیاں مل چکی ہیں بلکہ اُن کی اس فلم کی مراکش ہی سے تعلق رکھنے والی ہیروئن کو بھی، جو اس طرح کی دھمکیوں کے بعد مراکش چھوڑ کر فرانس منتقل ہو چکی ہے۔
جرمنی میں چَودہ اپریل سے نمائش کے لیے پیش کی جانے والی اس فلم کو اس لیے بھی دلچسپی سے دیکھا جائے گا کہ چند مہینے پہلے سالِ نو کی شب خاص طور پر شمالی افریقی شباہت والے نوجوانوں نے ہی خواتین پر جنسی حملے کیے تھے اور یہ حملے جرمنی ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں ایک بڑی بحث کا باعث بنے تھے۔