1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مراکش، الجزائر اور تیونس محفوظ ممالک ہیں‘

کشور مصطفیٰ1 مارچ 2016

نئے سال کی آمد پر جرمن شہر کولون میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد شمالی افریقی باشندوں کو جرمنی سے جلد از جلد ملک بدرکرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس عمل میں جرمن حکومت کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا ہے مراکش اور الجزائر نے۔

https://p.dw.com/p/1I4lj
تصویر: picture-alliance/Italienische Marine/dpa

اس بارے میں بات چیت کی غرض سے وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے پیر کو مراکش اور الجیریا کے حکومتی سربراہان سے ملاقات کی۔ ان ممالک کے دورے پر گئے ہوئے جرمن وزیر منگل کو تیونس کے دارالحکومت تیونس میں بھی حکام سے ملاقات کر رہے ہیں۔

مراکش اور الجیریا کے حکومتی اہلکاروں نے جرمنی کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے اپنے باشندوں کو جرمنی سے واپس اپنے ملک بلانے کے عمل کو سہل تر اور تیز رفتار بنانے میں مکمل تعاون کریں گے۔ جرمن حکام ملک بدری کے سلسلے میں پہلے اپنی توجہ مراکش اور الجیریا سے آئے ہوئے اُن باشندوں پر مرکوز کریں گے جو گزشتہ سال جرمنی کی طرف آنے والے مہاجرین کے طوفان کے ساتھ جرمنی پہنچے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اقتصادی مہاجرین ہیں، جو اپنی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے لیے جرمنی آئے ہیں۔

Tunesien De Maiziere trifft Hédi Majdoub in Tunis
جرمن وزیر داخلہ تیونس میںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Fischer

جرمن وزیر داخلہ نے اس سلسلے میں مراکش، الجیریا اور پھر تیونس کے حکام کے ساتھ بات چیت میں جرمنی کے موقف کو واضح کرتے ہوئے صاف الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ’’ اس امر پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہم مہاجرین کے اس گروپ سے تعلق رکھنے والوں میں سے ممکنہ بھاری تعداد میں پناہ کے متلاشی افراد کو سب سے پہلے ملک بدر کریں گے۔ اس سلسلے میں مراکشی حکام اپنی طرف سے 45 روز کے اندر اندر اپنے اُن باشندوں سے متعلق تمام تر ضروری سوالات کا جواب تیا کر لیں گے۔‘‘ اس عمل میں فنگر پرنٹس کو بطور شناخت بروئے کار لایا جائے گا۔ جرمنی میں پناہ کے متلاشی جن افراد کی درخواستیں رد کر دی جائیں گی انہیں معمول کی پروازوں میں بٹھا کر واپس اُن کے ملک مراکش اور الجیریا پہنچا دیا جائے گا۔

جرمن وزیر داخلہ کے مطابق مراکش کے حکومتی سربراہ عبد الإله بنكيران اور وزیر داخلہ محمد حصاد نے اس امر کا یقین دلایا ہے کہ مراکش ایک محفوظ آبائی ملک ہے۔

Flüchtlinge aus Nordafrika in Chemnitz
جرمنی سے شمالی افریقی پناہ گزینوں کو ملک بدر کر دیا جائے گاتصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt

وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرین و پناہ گزین کے اندازوں کے مطابق گزشتہ برس مراکش سے قریب 10 ہزار تارکين وطن جرمنی آئے تھے جبکہ شمالی افریقی ممالک سے جرمنی آنے والے پناہ کے متلاشی افراد جن کی درخواستیں منظور کر لی گئیں کی شرح 3.7 فیصد رہی۔ اب جرمن حکومت بھی شمالی افریقہ کی المغرب کہلائی جانے والی ریاستوں مراکش اور الجیریا یا الجزائر اور تیونس کو محفوظ ملک قرار دے رہی ہے۔

جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے مراکشی باشندوں کا نہ تو کوئی کوٹا مختص کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کی تعداد کی کوئی حد طے ہے۔ سب سے پہلی کھیپ میں ایسے 29 مراکشی باشندوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن کی شناخت بالکل واضح طور پر ہو چُکی ہے۔ اس عمل کو سہل بنانے کے لیے مراکشی حکومت ایسے سفری دستاویز جاری کرے گی جو معمول کی مدت سے زیادہ عرصے تک جائز اور قابل استعمال ہو گی۔ اب تک اس نوعیت کی سفری دستاویزات چند دنوں کے لیے قابل استعمال ہوا کرتی تھیں جو اکثر و بیشتر ملک بدری کے عمل میں رکاوٹ کا سبب بنتی تھیں۔