متعصبانہ اصطلاحات سے پاک ادب
15 جولائی 2013اس سال اٹھارہ فروری کو 89 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے جرمن ادیب اوٹفریڈ پروئسلر نے بچوں اور نوعمروں کے لیے تیس سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں، جو دنیا بھر میں پچاس سے زیادہ زبانوں میں تقریباً پچاس ملین کی تعداد میں شائع ہو چکی ہیں۔ انہی کتابوں میں ’دی کلائنے ہیکسے‘ یا ’ننھی چڑیل‘ بھی شامل ہے، جو جرمنی میں بچوں کی مقبول ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب کو شائع کرنے والے ادارے تھینیمان پبلشرز کے مطابق یہ کتاب پہلی مرتبہ 1957ء میں شائع ہوئی تھی لیکن آج بھی اتنی پسند کی جاتی ہے کہ ہر سال اوسطاً پچاس ہزار کی تعداد میں شائع کی جاتی ہے۔
اس کہانی کے ایک منظر میں مرکزی کردار یعنی ننھی چڑیل ایک ایسی تقریب میں جاتی ہے، جہاں بچے مختلف طرح کے ملبوسات میں نت نئے بہروپ بھر کر شریک ہیں۔ اصل متن میں ’نیگرو‘ کی طرح کے کئی ایسے الفاظ بھی ہیں، جن سے نسل پرستی یا نسلی امتیاز کا تاثر مل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھینیمان پبلشرز کو گزشتہ برسوں کے دوران قارئین کی جانب سے بار بار احتجاجی مراسلے موصول ہوتے رہے چنانچہ اس اشاعتی ادارے نے اس سال جولائی میں بچوں کی اس کتاب کا جو نیا ایڈیشن شائع کیا ہے، اُس میں ایسے تمام الفاظ کو ختم کر دیا گیا ہے۔
تھینیمان پبلشرز کی ترجمان سویعا اُنبیہاؤن کے مطابق اشاعتی ادارے کے مالک کلاؤس وِلبرگ نے بار بار مصنف پروئسلر کے اہل خانہ سے یہ اجازت طلب کی ہے کہ آیا متعلقہ حصوں کو واقعی بدلا جا سکتا ہے۔ بالآخر پروئسلر کے گھر والوں نے یہ کہتے ہوئے ایسا کرنے کی اجازت دے دی ہے کہ عبارت کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔ ایک دو اور کتابوں میں بھی استعمال کیے گئے لفظ ’نیگرو‘ کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تاہم کچھ اشاعتی ادارے اپنے نئے ایڈشنز میں بھی اس طرح کی اصلاحات تبدیل نہیں کر رہے۔ مثلاً ہانزر پبلشرز نے امریکی ادیب مارک ٹوئین کے مہماتی ناول ’ہکل بیری فِن‘ کے نئے ترجمے میں ’نیگر‘ کی طرح کی نسل پرستانہ اصلاحات کو ویسے کا ویسا رہنے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مترجم آندریاز نوہل نے اخبار فرانکفرٹر الگمائنے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹوئین کے گزر جانے کے بعد اُسے ایک دانا اور ہوشیار انسان کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہتے۔
ادبی محققہ اور پروئسلر کے لکھے ادب پر گہری نظر رکھنے والی آندریا وائنمان نے تھینیمان پبلشرز کو مشورہ دیا تھا کہ ’ننھی چڑیل‘ کو تبدیلیوں کے بغیر شائع کیا جائے، اس لیے نہیں کہ وہ ان الفاظ کے استعمال کو درست خیال کرتی ہیں بلکہ اس لیے کہ ان الفاظ کی بدستور شمولیت سے ماضی کے حالات و واقعات پر زیادہ ناقدانہ انداز میں نظر ڈالنے کا موقع ملے گا۔ وہ کہتی ہیں، ’میں اس بات کو خارج از امکان قرار دیتی ہوں کہ پروئسلر کوئی نسل پرست تھا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ کلاسیکی ادب کو جوں کا توں رہنے دیا جانا چاہیے۔ اُن کے خیال میں یہی بچے بڑے ہوں گے تو جان جائیں گے کہ درحقیقت یہ کتابیں اُن کے بچپن کی یادوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں۔