1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مبارک کی صحت اور مصر کا سیاسی استحکام

9 مارچ 2010

مصری صدر حسنی مبارک کی بیماری اور بڑھتی ہوئی عمر کے پیشِ نظر کئی عشروں سے سیاسی طور پر مستحکم افریقی ملک مصر میں سرمایہ کار اس بارے میں فکرمند ہیں کہ حسنی مبارک کا جانشین کون ہو گا اور وہاں سیاسی استحکام آئندہ بھی رہے گا

https://p.dw.com/p/MNcC
تصویر: AP

اکیاسی سالہ حسنی مبارک 1981 سے برسر اقتدار ہیں۔ ان کے مخالفین ان کے طرزِ حکومت کو آمرانہ قرار دیتے ہیں لیکن ملکی معیشت کے لئے ان کا دورِ صدارت بہت بہتر ثابت ہوا ہے۔ عالمی معاشی بحران کے باوجود مصری معیشت میں شرح نمو پانچ فیصد رہی ہے اور یہ ریاست غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے مسلسل پرکشش ہے۔

ان مثبت معاشی عوامل کے باوجود اب کئی سرمایہ کار مصر میں سیاسی استحکام کے حوالے سے قدرے پریشان بھی ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ حسنی مبارک چھٹی مرتبہ بھی صدارتی عہدے کے لئے امیدوار ہوں گے، یا اقتدار اپنے 46 سالہ بیٹے جمال مبارک کو سونپ دیں گے۔

کچھ حلقوں کو یہ خطرہ بھی ہے کہ قاہرہ میں اقتدار کے ایوانوں پر کوئی فوجی افسر یا کوئی دوسرا نیا چہرہ بھی چھا سکتا ہے۔ حسنی مبارک نے کبھی کسی کو اپنا نائب نہیں بنایا اور ماضی میں کچھ مواقع پر ملکی اقتصادی منڈیاں سیاسی بے یقینی کی اطلاعات سے متاثربھی ہوتی رہی ہیں۔ تاہم اس مرتبہ یہ بے یقینی کچھ زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

Ägypten Kombo Hosni Mubarak und seinem Sohn Gamal Mubarak
مصری صدر اور ان کے بیٹے جمال مبارکتصویر: AP

خبر ایجنسی روئٹرز نے Wolfram Lacher نامی معاشی تجزیہ نگار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے: "مصرمیں سیاسی استحکام کافی عرصے تک معیشت کے لئے انتہائی مفید رہا ہے۔ لیکن جیسے جیسے صدارتی جانشینی کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، سیاسی منظر نامے کی کیفیت بھی غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے، جو معاشی ترقی کے لئے مفید نہیں ہے۔"

کئی ماہرین تو یہ شکایت بھی کر رہے ہیں کہ ملکی اور بیرونی سرمایہ کار اب اپنی سرمایہ کاری پر زیادہ منافع کے مطالبے کرنے لگے ہیں۔

قاہرہ حکومت سیاسی عدم استحکام کی ان اطلاعات کو سختی سے رد کرتی آئی ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم احمد نظیف ابھی کچھ عرصہ قبل ہی یہ وضاحت کرنے پر بھی مجبور ہو گئے تھے کہ سرمایہ کاروں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ مصر میں انتقال اقتدار کا طریقہ ہمیشہ ہی سے موجود رہا ہے جو اب بھی ہے۔

مصری آئین کے مطابق اگر صدر مملکت اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران انتقال کر جائے یا ان کی انجام دہی کے قابل نہ رہے، تو صدارتی اختیارات وقتی طور پر پارلیمانی اسپیکر کو منتقل ہوجاتے ہیں اور ساٹھ دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد بھی لازمی ہوجاتا ہے۔ 2005 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ ایک سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ یہ الیکشن بھی حسنی مبارک نے اس سے پہلے کے انتخابات کی طرح باآسانی جیت لیا تھا۔ مصر میں ملکی قوانین ایسے ہیں کہ اگر کسی امیدوار کو حسنی مبارک کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت حاصل نہ ہو، تو وہ بمشکل ہی کرسئ صدارت تک پہنچ سکتا ہے۔

Ausgrabungen in Luxor Ägypten Flash-Galerie
مصر کے ایک تاریخی علاقے میں زیر تعمیر سڑکتصویر: AP

مصر میں بہت سے عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ حسنی مبار ک اپنے بیٹے جمال کو اقتدار سونپ دیں گے جبکہ ملک کی تاجر برادری بھی جمال کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ لیکن چونکہ اب تک صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے سیاستدانوں کے برعکس جمال مبارک کا ملکی مسلح افواج سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا، اس لئے انہیں اپنی سیاسی حیثیت مضبوط بنانے میں دشواری ہوگی۔

چند حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مصر کے قومی خفیہ ادارے کے سربراہ عمر سلیمان بھی، جو حسنی مبارک کے قریبی معتمد سمجھے جاتے ہیں، صدارت کی کرسی پر براجمان ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرانام بین الاقوامی ادارہ برائے جوہری توانائی کے سابق سربراہ محمد البرادئی کا بھی ہے جو کہہ چکے ہیں کہ وہ بھی آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رپورٹ : عبدالستار

ادارت : مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں