1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالی مدد کا مقصد افغان تعمیر نو کی تیز رفتاری، ایران

26 اکتوبر 2010

ایران نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اُس نے افغانستان کو مالی امداد فراہم کی ہے۔ تاہم ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق اس کا مقصد پڑوسی ملک کو مستحکم بنانا اور وہاں جاری تعمیر نو کے کاموں میں معاونت کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/PoLG
آیت اللہ علی خامنہ ایتصویر: AP

قبل ازیں افغان صدر حامد کرزئی نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہر سال تہران حکومت کی طرف سے کابل میں صدارتی محل کے اخراجات پورے کرنے کے لئے سات لاکھ سے لے کر ایک ملین امریکی ڈالر تک مہیا کئے جاتے ہیں۔

افغان صدرکا یہ بیان امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں ویک اینڈ پر شائع ہونے والی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا، جس میں حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف عمر داؤد زئی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ایران سے نقد رقوم وصول کرتے رہے ہیں۔

Iran Afghanistan Karsai Ahmadinedschad Kabul
سال رواں مارچ کے ماہ میں احمدی نژاد کا کابل کا دورہتصویر: AP

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ عمر داؤد زئی، جو ماضی میں ایران میں افغانستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، مغرب کے خلاف نظریات رکھتے ہیں۔ ایران غالباً انہیں پیسے دے کر کابل کے حکومتی اہلکاروں میں مغرب مخالف جذبات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ داؤد زئی روزانہ صدر کرزئی سے ملاقات میں انہیں تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بریفنگ بھی دیتے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ پر صدر کرزئی نے ایران کی طرف سے کسی قسم کی خفیہ مالی امداد کی فراہمی کی خبر کو سختی سے رد کرتے ہوئے اس پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ صدر کرزئی نے کہا تھا: ’’ہم ایرانی عوام کے شکر گزار ہیں۔ امریکہ بھی اسی طرح ہمارے چند اہلکاروں کو نقد رقوم دیتا ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے غیر ضروری اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کیا جائے۔‘‘

حامد کرزئی کے بقول دوست ریاستوں کی طرف سے افغانستان کو رقوم کی ادائیگی کا معاملہ کیمپ ڈیوڈ میں سابق امریکی صدر جاج ڈبلیو بش کے ساتھ بھی زیر بحث آیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا انہوں نے خاص طور سے ایران کا بھی نام لیا تھا یا نہیں۔

Wiederaufbau in Schirpur, Wazir Akbar Khan
افغانستان کی اب بھی تعمیر نو کے لئے مدد غیر ملکی تعاون کی ضرورت ہےتصویر: DW/ Yasir

ادھر تہران میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست سے جب افغان صدر کے گزشتہ روز دئے گئے بیانات پر ایرانی موقف کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: ’’اسلامی جمہوریہء ایران پڑوسی ملک کی حیثیت سے افغانستان کی سلامتی اور استحکام کوغیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ ہماری حکومت نے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے بہت معاونت کی ہے۔‘‘ تاہم مہمان پرست نے اس تعاون کی نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ایران افغانستان کی اقتصادی ترقی اور تعمیر نو کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔‘‘

ایران کے افغانستان کے ساتھ اقتصادی اور دیگر شعبوں میں تعاون کے بارے میں امریکہ میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ واشنگٹن سالوں سے جاری افغانستان جنگ کے خاتمے کے عمل کو تیز تر کرنا چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں افغانستان میں بڑھتی ہوئی امریکہ اور مغرب کے حوالے سے مخالفت امریکی حکام کے لئے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ امریکہ کو یہ خطرات بھی لاحق ہیں کہ کہیں ایران افغانستان میں باغیوں کو فنڈز دے کر وہاں پائی جانے والی مغرب دشمنی کی آگ کو ہوا دینے کی کوشش نہ کرے، خاص طور سے کابل میں حکومتی اہلکاروں کو کہیں ایران اپنی طرف نہ کر لے۔

Grenze Irak Iran
ایران اپنی مغربی سرحدوں پر واقع ملک عراق میں امریکی فوج کی موجودگی سے بھی فکر مند ہیںتصویر: picture alliance/dpa

دریں اثناء وائٹ ہاؤس کے نائب ترجمان بل برٹن نے کہا ہے کہ امریکی عوام اور عالمی برادری کے پاس یہ سمجھنے کے تمام تر جواز موجود ہیں کہ ایران افغانستان پر منفی طریقے سے اثر انداز ہو رہا ہے۔ بل برٹن کے مطابق ایران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ افغانستان میں دہشت گرد اپنے محفوظ ٹھکانے نہ بنا پائیں اور وہاں کی سرزمین حملوں کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال نہ کی جائے۔

ایران اور امریکہ کے مابین گزشتہ تین دہائیوں سے کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے ایران اپنی مشرقی سرحدوں پر، یعنی افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی، اور دوسری جانب مغرب میں، عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی باعث، اپنے لئے کافی خطرات محسوس کرتا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں