مالديپ ميں سياسی بحران، ملکی صدر عدالت عظمٰی کے مد مقابل
4 فروری 2018مالديپ کے اٹارنی جنرل جنرل محمد انيل نے کہا ہے کہ صدر کو گرفتار کرنے کے حوالے سے عدالت عظمٰی کا کوئی بھی حکم غير آئينی اور غير قانونی ہو گا۔ اتوار کو قومی ٹيلی وژن پر عوام سے اپنے خطاب ميں انہوں نے کہا، ’’اسی ليے ميں نے پوليس اور فوج کو ہدايت دی ہے کہ کسی بھی غير آئينی حکم نامے پر عملدرآمد نہ کيا جائے۔
مالديپ ميں يہ صورتحال صدر يامين کی جانب سے سياسی مخالفين کو سپريم کورٹ کے احکامات کے باوجود رہا نہ کرنے کے بعد پيدا ہوئی ہے۔ عدالت نے جمعرات يکم فروری کو احکامات جاری کيے تھے کہ صدر يامين کی پارٹی سے عليحدگی اختيار کرنے والے بارہ قانون سازوں کو ان کی نشستوں پر بحال کيا جائے اور نو سياسی مخالفين کو رہا کيا جائے۔ عدالتِ عظمیٰ کے مطابق متعلقہ قانون سازوں کو پارٹی سے نکالنے اور ان کو عہدوں سے ہٹانے کے پيچھے سياسی وجوہات کارفرما تھيں۔ تاہم فی الحال صدر عبداللہ يامين کی حکومت اس غير متوقع فيصلے پر عملدرآمد کرنے ميں ناکام رہی ہے اور بظاہر اس کے خلاف جا رہی ہے۔
مالديپ کے سابق صدر و موجودہ اپوزيشن رہنما محمد نشيد نے حکومت کی جانب سے سپريم کورٹ کے فيصلے کے خلاف جانے کو ’مارشل لاء‘ سے تعبير کيا ہے۔ نشيد کو ايک متنازعہ فيصلے ميں دہشت گردی کے جرم ميں سن 2015 ميں تيرہ برس قيد کی سزا سنا دی گئی تھی۔ وہ علاج کی غرض سے دو برس قبل مالديپ سے فرار ہو گئے تھے۔ اس وقت وہ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو ميں ہيں۔ تازہ پيش رفت پر اپنے بيان ميں انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور ديا ہے کہ وہ آئين کا احترام اور اس کی بالا دستی قائم رکھيں۔ ان کے بقول صدر کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہيے۔
مالديپ کی ڈيموکريٹک پارٹی کے سربراہ محمد نشيد نے خدشہ ظاہر کيا ہے کہ عدالت عظمی کے احکامات پر عمل نہ کرنے سے ملک بد امنی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس حکومت کا موقف ہے کہ زير حراست افراد کے خلاف ’بد عنوانی، دہشت گردی، بغاوت اور مال غبن کرنے‘ جيسے سنگين الزامات ہيں اور ان کے رہائی پر حکومت کو تحفظات ہيں۔
اقوام متحدہ، آسٹريليا، برطانيہ، کينيڈا، بھارت اور امريکا نے مالديپ کی عدالت عظمی کے فيصلے کو سياسی عدم استحکام کی شکار اس رياست ميں جمہوريت کی طرف ايک مثبت قدم قرار ديا ہے۔