مالاکنڈ آپریشن: عسکریت پسند ’مہاجرین کے بھیس‘ میں
14 مئی 2009مالاکنڈ ڈویژن کے شورش زدہ علاقوں سے نقل مکانی کاسلسلہ بدستور جاری ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مینگورہ اور مضافاتی علاقوں میں ساڑھے پانچ لاکھ لوگ محصور ہیں۔
عسکریت پسندوں کی اعلیٰ قیادت آپریشن شروع ہوتے ہی روپوش ہوچکی ہے جب کہ نچلی سطح کے کمانڈرز اور جنگ جو فورسز کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی دیگر شہروں میں آمد کو روکنے کی خاطر مالاکنڈ مردان شاہراہ کے مرکزی چیک پوسٹ پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے جہاں وہ نقل مکانی کرنے والوں کی مکمل تلاشی لے رہے ہیں۔
چیک پوسٹ پر موجود پولیس افسران کا کہنا ہے کہ پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نقل مکانی کرنے والوں پر مکمل نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید نظام کی وجہ سے انہیں پتہ چل جاتاہے کہ کس گاڑی میں دھماکہ خیز مواد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بم ڈسپوزل اسکواڈ بھی ہے اور ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے وہ مکمل تیاری کرچکے ہیں۔
پشاور میں پولیس کی جانب سے نقل مکانی کرنے والوں کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں ہے اور نہ ہی ان کی رجسٹریشن کا کوئی موثر طریقہ اختیار کیا گیا ہے تاہم پشاور کے ایس ایس پی جمیل احمد کا کہناہے کہ پشاور کے تمام علاقوں کی یونین کونسل کے ممبران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ علاقے میں رہائش اختیار کرنے والے پناہ گزنیوں کی مکمل معلومات مقامی تھانے کو فراہم کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ مالکان سے بھی یہی گذارش کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو گھر کرائے پر دیتے وقت ان کی چھان بین کریں اور ان کے بارے میں مکمل معلومات تھانوں کو فراہم کریں۔
دوسری جانب سیکورٹی فورسز نے دیر اور سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کاسلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ اس دوران سوات کے علاقہ پیوچار کا کنٹرول سنبھالنے اور ایک اہم کمانڈر نصیب الرحمن سمیت 11 افرادکی ہلاکت کادعویٰ کیا گیا ہے جب کہ آپریشن میں 4 اہلکار کے ہلاک اور 12 کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
بارہ روز سے جاری مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران لاکھوں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں جو مردان، چارسدہ اور پشاورمیں 22 کیمپوں میں بے سر و سامانی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مینگورہ اور مضافات میں ساڑھے پانچ لاکھ شہری محصور ہیں۔
گزشتہ بارہ روز سے شہر میں بجلی بند ہے جس کی وجہ سے پانی بھی نہیں ہے جب کہ مسلسل کرفیو کی وجہ سے علاقے میں اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی شدید قلت ہے تاہم حکومت اور عالمی اداروں نے ان لاکھوں محصور لوگوں کی حالت پر چپ سادھ لی ہے۔
ادھر پشاور میں ایک مرتبہ پھر افغانستان میں مقیم نیٹو فورسز کے لئے سامان لے جانے والے ٹرکوں پرمیزائل حملہ کیا جس سے آٹھ ٹرک تباہ ہوئے ہیں۔