مالاکنڈ آپریشن: بیرونی امداد کی پہلی کھیپ پہنچ گئی
12 مئی 2009پیوچار تحصیل مٹہ کا وہی علاقہ ہے جہاں پر تحریک طالبان سوات کے امیر مولانا فضل اللہ مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موجود ہیں اور ذرائع کے مطابق اس علاقے میں ایف ایم ریڈیو کی نشریات کے علاوہ شدت پسندوں کی عسکری تربیت کے کیمپ بھی قائم ہیں۔
میجر جنرل اطہر عباس نے منگل کے روز سوات آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ پیوچار کے علاقے میں شدت پسندوں کے اہم ٹھکانوں کی طرف پیش قدمی جاری ہے جس میں بھاری توپ خانہ، کوبرا ہیلی کاپٹر، آرمی اور فرنٹیئر کور کے جوانوں اور کمانڈوز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
ترجمان کے مطابق اب تک ہونے والی لڑائی میں 751 عسکریت پسند جبکہ 29 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تاہم انہوں نے جنگ کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار بتانے سے گریز کیا۔ جنرل اطہر عباس کے مطابق مینگورہ میں پھنسے ہوئے عام شہریوں کو نکالنے کے لئے حکمت عملی پر بھی کام ہو رہا ہے تاہم وہاں تک رسائی فی الوقت کافی مشکل ہے۔
میجر جنرل اطہر عبّاس کا کہنا ہے کہ مینگورہ میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسند ایک دوسرے کے ساتھ مدِ مقابل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جگہ نہیں مل رہی کہ ان لوگوں کی مدد کی جا سکے اور ان کو وہاں نکالا جا سکے۔ اس وقت علاقے میں سخت جنگی حالات ہیں۔ اس وقت ایک حکمت عملی پر کام ہو رہا ہے اور ہمیں اس بات کا پورا احساس ہے کہ کرفیو کا دورانیہ انتہائی طویل ہو گیا ہے۔ اس کا دورانیہ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے اندر وہ موقع ملے گا کہ سیکورٹی فورسز نکل کر دوسروں کی مدد کریں۔
اسی دوران فوجی آپریشن میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 10لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے جو کہ اقوام متحدہ کے مطابق کسی ملک میں داخلی طور پر سب سے بڑی بے دخلی ہے۔ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ منگل کے روز بھی جاری رہا اور صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں میں اب تک 3 لاکھ 60 ہزار افراد کو رجسٹر کیا جا چکا ہے جب کہ آپریشن میں تیزی کے ساتھ مزید لوگوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے جس کے باعث مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ریڈ کراس ان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال میں سرگرم ہو چکے ہیں اور بیرونی ممالک سے امداد کی پہلی کھیپ بھی پہنچ گئی ہے۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں حکومت کے لئے سوات اور مالا کنڈ میں فوجی آپریشن کی کامیابی سے بھی بڑا چیلنج بڑی تعداد میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی دیکھ بھال اور بحالی ہو گا کیونکہ اب تک کے واقعات کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ سوات کے مرکز مینگورہ تک رسائی کی کوشش میں انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔