1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماضی بعید پراک نظر

19 فروری 2010

تقریباً تیرہ سو سال قبل مسیح مصر میں اٹھارویں فرعونی بادشاہت کے چشم و چراغ Tutankhamun کی وفات کی وجوہات کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات

https://p.dw.com/p/M5kC
تصویر: AP

انیس سال کی عمر میں مرنے والے فرعون Tutankhamun کی وجہِ موت ایک بار پھر زرائع ابلاغ کی دلچسپی کا باعث بن گئی ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق فرعونی گھرانے کا بہادر نوجوان Tutankhamun جس کا مطلب ہے’ لیونگ ایمیج آف دا سن‘ کسی میدان جنگ میں تلوار کے وار سے نہیں بلکہ ایک معمولی مچھر کے ڈنگ سے ہلاک ہوا۔

امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق سائنس دانوں نے دو سال تک اس فرعون کے جسم کی باقیات پر تحقیق کی تاکہ اس میں سے خون اور DNA کے نمونے حاصل کئے جا سکیں اور پھر یہ پتہ چلا کہ اس فرعون کے خون میں ملیریا کے ’پیراسائٹس‘ یا طفیلیئے موجود تھے اور وہ دماغی ملیریا کے مرض کا شکار ہوکر مرا تھا۔

Ägyptisches Museum Kairo Flash-Galerie
تصویر: AP

ماہرین کا خیال ہے کہ ہلاک سے کچھ عرصے پہلے بادشاہ ٹٹ کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، جو صیح نہیں ہو پائی۔ اس بیماری کی وجہ سے ایک طرف تو نوجوان بادشاہ کمزرو ہوگیا تھا اور دوسری طرف انفیکشن کا شکار۔ لیکن جس چیز نے بادشاہ کی جان لی وہ اس جسمانی نا تانوانی کے دوران ملیریا کا حملہ تھا۔

لیکن بادشاہ ٹٹ کی باقیات پر تحقیق کرنے والے لیورپول یونیورسٹی برطانیہ کے ڈاکڑ Bob Connolly کے مطابق صرف بادشاہ کے جسم میں طفیلیئے ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ ٹٹ کی موت ملیریا کی وجہ سے ہوئی ہو۔ بادشاہ کی ٹوٹی ہوئی پسلیوں سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

1922 میں فرعون Tutankhamun کے مقبرے کی دریافت کے بعد سے لےکر اب تک یہ بات موضوع بحث رہی ہے کہ اُس کی موت کس طرح واقع ہوئی تھی۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اپنی گھوڑا گاڑی سے گرنے کی وجہ سے زندگی سے محروم ہوا تھا۔ جب کہ کچھ دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ اُس کو قتل کیا گیا تھا۔ کچھ ایسے بھی مورخین ہیں جن کے مطابق Tutankhamun ایک موروثی بیماری کا شکار تھا اور یہی وجہ تھی اُس کے اِس جہانِ فانی سے اچانک کوچ کرجانے کی۔

Ralley in der Sahara
تصویر: AP

ماہرین کے ایک گروپ کا خیال ہےکہ فرعون ٹٹ کا خاندان Marfan Syndrome کی بیماری میں مبتلاء تھا۔ بنیادی طور پر اس بیماری کی وجہ سے انسانی جسم کے مختلف حصوں کو جوڑنے والے ٹشوز میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ جوڑنے والے ٹشوز (Connective Tissues ( جسم میں خون کی نالیوں اور پٹھوں سمیت کئی اور دیگر ڈھانچوں کو سہارا دیتے ہیں۔ ان ٹشوز میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں جسم کے ڈھانچے اتنے مضبوط اور سخت نہیں رہتے جتنے کہ اُن کو ہونا چاہیے۔

لیکن مصری ماہرِآثارِ قدیمہ ڈاکڑ زاہی ہاواس اس دلیل سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے ان کی ٹیم نے فرعون Tutankhamun اور شاہی گھرانے کے دس دیگر افراد کی باقیات پر تحقیق کی ہے۔ اُن کا دعویٰ ہےکہ اُنہیں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ فرعون ٹٹ یا ان کے گھرانے میںMarfan Syndrome کا کوئی وجود تھا۔

ڈاکڑ زاہی ہاواس کا دعویٰ ہے کہ یہ نوجوان بادشاہ Kohler disease II نامی ایک ایسی موروثی بیماری میں ضرور مبتلاء تھا، جس میں پیرسمیت جسم کے کچھ اور حصے متاثر ہوتے ہیں۔ محقیقن کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اُس کی موت کی وجہ یہ بیماری ہو، لیکن ٹٹ کے زیرِاستعمال اشیاء میں ایک سے زائد لاٹھیوں کا پایا جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ انہیں چلتے وقت سہارے کے طور پر استعمال کرتا ہوگا اور یہ کہ اُس کو کوہلر ٹوُ نامی بیماری تھی۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: کشور مصطفیٰ