1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لے پین کی جیت یورپ کے لیے ’بہت بڑا دھچکا‘ ہو گی، ڈیوڈ کیمرون

3 دسمبر 2016

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے مطابق اگر فرانس میں صدارتی الیکشن اسلام مخالف اور انتہائی دائیں بازو کی خاتون رہنما مارین لے پین جیت گئیں، تو ان کی فتح یورپ کے لیے ایک ’بہت بڑا دھچکا‘ ہو گی۔

https://p.dw.com/p/2Tgsp
Brexit Reaktionen Archivbild Marine Le Pen
تصویر: Reuters/H.-P. Bader

سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے امید ظاہر کی ہے کہ فرانس میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات کے دوران مرکزی دھارے کی کوئی سیاسی جماعت ہی کامیاب ہو گی۔ ڈیوڈ کیمرون کا حالیہ چند برسوں کے دوران یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافے کے حوالے سے کہنا تھا، ’’موجودہ نظام کی مخالف اور عوامیت پسند نئی سیاسی جماعتیں عالمگیریت کا خاتمہ نہیں ہیں۔‘‘ تاہم ان کا خبردار کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ اقتصادی اور ثقافتی مسائل سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ’نظام کی اصلاح‘ کی ضرورت ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہندوستان ٹائمز کی طرف سے منعقد کی جانے والی ایک کانفرنس کے دوران کیمرون کا کہنا تھا، ’’اگر فرانس میں لے پین کو منتخب کر لیا جاتا ہے، تو ظاہر ہے یہ یورپی منصوبے کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ فرانس میں مرکزی دھارے میں شامل کسی ایسی سیاسی جماعت کو ہی انتخابی فتح حاصل ہو گی، جو عوام کو متحد رکھ سکے گی۔‘‘

یورپ میں قوت پکڑتی قدامت پسند سیاسی جماعتیں

یورپ میں دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کی وجہ عالمگیریت سے خوف

کیمرون کا مزید کہنا تھا کہ مغرب میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود آزاد تجارت، سفر، تخصص، ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات کی طلب کم نہیں ہو جائے گی، ’’لیکن ہمیں ان حالات کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے، جن کی وجہ سے گزشتہ ایک برس کے دوران یورپ اور دنیا میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔‘‘

ڈیوڈ کیمرون کو برطانیہ میں اس وقت اپنا عہدہ چھوڑنا پڑ گیا تھا، جب  ایک ملکی ریفرنڈم کے دوران برطانوی عوام کی اکثریت نے آئندہ یورپی یونین کا رکن نہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم خود کیمرون برطانیہ کے یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں تھے اور انہوں نے اسی پہلو سے اپنی عوامی مہم چلائی تھی۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’میں ابھی بھی یہی سوچتا ہوں کہ یورپی یونین میں رہنا برطانیہ کے حق میں بہتر تھا۔‘‘

 یورپی یونین کے کئی ممالک میں پرانی اور مضبوط جماعتوں کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتیں تیزی سے اوپر آ رہی ہیں۔ ان میں فرانس کی نیشنل فرنٹ، آسٹریا کی فریڈم پارٹی، اٹلی کی فورسا اٹالیا اور برطانیہ کی یوکے انڈیپینڈنس پارٹی پیش پیش ہیں۔ فرانس میں نیشنل فرنٹ کی خاتون رہنما مارین لے پین آئندہ صدارتی انتخابات میں اپنے حریف فرانسوا فیوں کو غالباﹰ شکست دے سکتی ہیں۔