’لہو لہو کشمیر کب تک؟‘، کشمیری وفد کی بھارتی صدر سے ملاقات
20 اگست 2016جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں ہفتہ بیس اگست کو ریاست کی بیس اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ایک وفد نے نئی دہلی میں صدر پرنب مکھرجی سے ملاقات کی اور انہیں کشمیر کی سنگین صورت حال پر قابو پانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ اور آئینی اختیارات استعمال کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے صدر سے درخواست کی کہ وہ کشمیرکی موجودہ صورت حال کا حل تلاش کرنے کے لیے مرکز میں قائم مودی حکومت پر دباؤ ڈالیں کیوں کہ کشمیر کا معاملہ انتظامی نہیں بلکہ سیاسی ہے اور اسی طور پر اسے حل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ آج کل جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت ہے۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد عمر عبداللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا:’’ہم اپنی تشویش سے صدر مکھرجی کو آگاہ کرنے آئے تھے۔ ہمارے گھروں میں آگ لگی ہے اور یہ آگ جموں کے آس پاس پیر پنجال کے پہاڑی علاقوں، وادیٴ چناب اورکارگل علاقے میں بھی پھیل رہی ہے۔ اگر اسے جلد نہیں روکا گیا تو اس سے پریشانی اور زیادہ بڑھ جائے گی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مود ی صاحب جو چاہتے ہیں، وہ کریں لیکن ہمارے گھر میں جو آگ لگی ہوئی ہے، اسے بجھانے میں مدد ضرور کریں۔ اس میں ستّر کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔‘‘
عمر عبداللہ نے کہا:’’ہم نے صدر کو حقیقی صور ت حال سے آگاہ کیا اور ان سے کشمیر کے حوالے سے تمام فریقین کے درمیان بات چیت بحال کرانے کی درخواست کی۔‘‘ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’ایک جامع اور پائیدار سیاسی پہل کے ذریعے ریاست کے عوام کو شامل کرنے میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے ان کے اندر الگ تھلگ پڑ جانے کا احساس مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور اس سے مستقبل کی نسل غیر یقینی کی حالت کا شکار ہو رہی ہے‘۔
کشمیرکی موجودہ صورت حال میں پاکستا ن کے ملوث ہونے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ کہنا تھا کہ ’برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں، اس کے لیے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، یہ ہماری اپنی ناکامی ہے۔ گوکہ پاکستان نے آگ پر پٹرول ڈالنے کا کام کیا ہے لیکن ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جو باتیں ہم سیاسی قیادت سے سننا چاہتے ہیں، وہ آج ہمیں فوج سے سننے کو مل رہی ہیں‘۔
عمر عبداللہ کا اشارہ ناردرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا کی اس اپیل کی طرف تھا، جس میں انہوں نے کشمیر کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے کہا تھا کہ ’ہر ایک کو پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے مل بیٹھ کر راستہ نکالنے کی ضرورت ہے‘۔
دریں اثناء بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ہفتے کے روز ایک بار پھر پاکستان پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیر میں عدم استحکام پھیلانے کے ناپاک ارادے سے باز رہے اور بھارت کے صبر کا امتحان لینا بند کرے ورنہ اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا:’’پڑوسی ملک کشمیر کو تقسیم کرنا چاہتا ہے مگر ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہم کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر اور بندوق کی جگہ کمپیوٹر اور قلم دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
کشمیری اپوزیشن جماعتوں کے وفد کی صدر پرنب مکھرجی سے ملاقات کے حوالے سے وفد میں شامل بائیں بازو کے رہنما اور رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی لاتعلقی اور سخت رویے کی وجہ سے وادی کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے:’’ہر گذرتے دن کے ساتھ نوعمروں کی افسوس ناک ہلاکت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آخر کشمیر کب تک لہولہان رہے گا، یہ سوال آج ہر کشمیری پوچھ رہا ہے۔‘‘