1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی اور بھی مہنگی

25 مئی 2011

پاکستان میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر بجلی کے نرخوں میں ایک روپے سات پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11O2o
پاکستانی صارفین احتجاجاﹰ بجلی کے بل جلاتے ہوئے،فائل فوٹوتصویر: dpa

اس اضافے کی منظوری نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بدھ کو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی جانب سے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کی درخواست پر دی۔

بجلی کے نرخوں میں اس اضافے کا اطلاق گزشتہ اپریل کے مہینے سے ہوگا، جو صارفین کو بجلی کے بلوں میں آئندہ ماہ ادا کرنا پڑے گا۔ تاہم ملک کی سب سے بڑی بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے ای ایس سی اور 50 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر اس اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ حکومت بجلی کی قیمت میں اس اضافے کی وجہ طلب اور رسد میں فرق اور پیداواری لاگت میں اضافے کو قرار دیتی ہے۔پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر سید نوید قمر کا کہنا ہے کہ اگر پیداواری لاگت اور قیمت فروخت میں فرق کو کم نہ کیا گیا تو قیمتوں کا بوجھ حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گا۔

’’پیپکو کے نظام میں ہم جتنی بھی بجلی فروخت کرتے ہیں، بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی کے بلوں کے بقایا جات اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ اب یہ نظام چلانا حکومت کی برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ہم بجلی تیل سے بناتے ہیں اور اگر اس کا پیسہ اکٹھا نہیں کریں گے تو تیل خریدنے کے لیے ہمارے پاس سرمایہ نہیں ہوگا۔‘‘

Protest gegen Stromknappheit in Pakistan
پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی، فائل فوٹوتصویر: dpa

ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (پیپکو) نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی ٹی) سے اوسطاً ساڑھے9 روپے فی یونٹ بجلی خرید رہی ہے جبکہ صارفین کو ساڑھے 7 روپے کے حساب سے بجلی مہیا کی جا رہی ہے۔ حکومت رواں سال کے دوران اب تک بجلی کی مد میں صارفین کو 80 ارب روپے کی سبسڈی دے چکی ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف مسلسل حکومت پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بجلی کی قیمت میں دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرے۔

اس بارے میں پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر سید نوید قمر کا کہنا ہے، ’’آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہو یا ہماری اپنی ضروریات کے مطابق، ٹیرف ہم نے اس سطح پر رکھنا ہے کہ تیاری پر خرچ اور قیمت فروخت میں توازن آ جائے اور اس میں جو فیصلہ کیا گیا تھا کہ دو فیصد ماہانہ سے فوری طور پر صارف پر اتنا بوجھ نہیں ہوگا، لیکن یہ پروگرام جون تک کا تھا۔ اب یکم جون کو کم از کم موجودہ پروگرام کے آخر میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے بعد ہمیں جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہم وہ سارا ایریا کور کر چکے ہیں یا نہیں۔‘‘

ادھر عوام نے بجلی کی قیمتوں میں نئے اضافے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی ناپید ہے، ملک کے بعض حصوں میں 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور پھر بھی حکومت اس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیے جا رہی ہے۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں استعمال کے لیے بجلی میسر ہو تو شاید وہ اس اضافے کو برداشت بھی کر لیں، لیکن جب بجلی موجود ہی نہیں اور کاروبار بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، تو وہ کس طرح اتنی مہنگی بجلی کے بل ادا کریں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی کا یومیہ شارٹ فال اڑھائی ہزار میگا واٹ ہے جبکہ کچھ دن پہلے تک یہ شارٹ فال 5700 میگا واٹ یومیہ تھا۔ دوسری جانب آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق سوئی ناردرن گیس کمپنی کے نرخوں میں سات روپے 54 پیسے جبکہ سوئی سدرن کمپنی کے گیس کے نرخوں میں 5 روپے 8 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اس کا اطلاق آئندہ مالی سال یعنی یکم جولائی سے ہوگا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں