1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لشکر جھنگوی کے پانچ مشتبہ عسکریت پسند ہلاک، سکیورٹی فورسز

5 دسمبر 2016

سکیورٹی فورسز نے صوبہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث اور داعش سے منسلک لشکر جھنگوی کے پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ ایک دوسرے واقعے میں دس بلوچ باغیوں کو بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Tldz
Sicherheitskräfte in Pakistan
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

پیراملٹری فورسرز کے ایک ترجمان خان واسع کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’فرنٹیئر کور نے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ایک کمپاؤنڈ پر حملہ کیا اور فائرنگ کے تبادلے میں میں پانچ عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔‘‘ اس ترجمان کا دعویٰ تھا کہ یہ عسکریت پسند لشکر جھنگوی سے منسلک تھے اور یہ گروپ اس وقت داعش اور القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ محمد اکبر حریفال کا اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ پشین ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں میں پیش آیا ہے۔ پشین ڈسٹرکٹ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے شمال میں پینتیس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

لشکر جھگنوی گروپ ماضی میں بلوچستان میں ہونے والے متعدد فرقہ وارانہ اور خون ریز حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے اور حالیہ کچھ عرصے سے اس گروہ کی طرف سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں  صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ خضدار ڈسٹرکٹ میں دو طرفہ فائرنگ کے بعد دس بلوچ علیحدگی پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

معدنیاتی ذخائر سے مالا مال پاکستانی صوبہ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے علیحدگی پسند سرگرم ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق علیحدگی پسند نہ صرف پاکستانی حکومت کی جانب سے قدرتی وسائل کے حوالے سے اس صوبے کو استحصال کا شکار بنائے جانے کا شکوہ کرتے ہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی الزام عائد کرتے ہیں۔

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا جب کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ یورپی ملک اٹلی کے برابر رقبے کے حامل اس صوبے کی آبادی محض 90 لاکھ ہے۔ اس صوبے کو وسیع خودمختاری دیے جانے کا معاملہ پاکستانی سیاست میں ایک انتہائی نازک موضوع سمجھا جاتا ہے۔