لاہور سانحہ : پاکستانی ایوانوں میں کھلبلی
3 مارچ 2009وزیراعظم گیلانی نے موبائل عدالتوں کے قیام سے متعلق آرڈیننس کی واپسی کا بھی عندیہ دیا جس کو گزشتہ دو روز کے دوران مختلف حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں سری لنکن ٹیم پر حملے کی بھی کڑی مذمت کی اور مشیر داخلہ کو اس حوالے سے خصوصی تحقیقاتی ٹیموں کے ذریعے ذمہ داروں کو جلد از جلد بے نقاب کرنے کا حکم بھی دیا۔
’’پوری قوم کی تذلیل ہوئی ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ ملک کے خلاف سازش ہے اور میں نے مشیر داخلہ کو کہا ہے کہ وہ ابتدائی رپورٹ فوری طور پر ایوان میں پیش کریں۔‘‘
دوسری طرف نائب وزیر داخلہ تسنیم قریشی کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطحی تفتیشی عمل شروع ہو چکا ہے تاہم اس کی حتمی رپورٹ آنے سے پہلے کسی ملک یا گروپ کا نام لینا مناسب نہیں۔
’’ہم اس وقت تک ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتے جب تک ہمیں یقین نہ ہو کہ اس میں بیرونی عناصر کس حد تک ملوث ہیں اور اس کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے جو ہمیں 24گھنٹے کے اندر رپورٹ پیش کرے گی اور اس رپورٹ کی روشنی میں ہر پہلو سے اس کو دیکھا جائے گا۔‘‘
حکومت کی وضاحتوں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے وعدوں سے قطع نظر تقریباً تمام تجزیہ نگاروں نے لاہور کے واقعے کو سیکیورٹی کی شدید غفلت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خفیہ اور سیکورٹی اداروں نے غیر ملکی مہمانوں کی حفاظت کےلئے جامع اور دور اندیشی پر مبنی انتظامات کئے ہوتے تو حملہ آور ایک درجن افراد میں سے چند ایک کو فوری طور پر ہلاک یا گرفتار ضرور کیا جا سکتا تھا۔
عسکری ماہرین کے خیال میں لاہور کے واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردی کے چیلنج سے بطریق احسن نمٹنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔