لاہور حملہ، سوات آپریشن کا انتقام ہے، تحریک طالبان
28 مئی 2009خود کو تحریک طالبان پاکستان کاکمانڈر اور بیت اللہ محسود کا قریبی ساتھی بتانے والے حکیم اللہ محسود نے نامعلوم مقام سے خبر رساں ایجنسیوں کو فون کر کے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
’’ہم نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ ہم اس جگہ پر حملے کے لئے ایک لمبے عرصے سے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ سوات آپریشن کا ردعمل ہے۔‘‘
پاکستان کے دیگر علاقوں پر حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے حکیم اللہ محسود نے کہا : ’’ہم چاہتے ہیں کہ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور ملتان کے رہائشی شہر چھوڑ دیں کیونکہ اگلے کچھ دنوں اور ہفتوں میں ہم ان شہروں میں حکومتی عمارات پر بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘‘
پاکستانی حکومت کے مطابق لاہور کا یہ علاقہ جہاں حملہ کیا گیا ہائی سیکیورٹی زون کہلاتا ہے جہاں ایک طرف تو پولیس ہیڈکوارٹرز اور ریسکیو سروس کی عمارتیں ہیں اور دوسری طرف پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا دفتر بھی ہے۔ حملے میں ریسکیو 15 کی عمارت سب سے زیادہ متاثر ہوئی جب کہ قریب ہی واقع آئی ایس آئی کے دفتر اور سٹی پولیس چیف آفس کو بھی نقصان پہنچا۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی ان حملوں کو ممکنہ طور پر سوات آپریشن کا ردعمل قرار دیا تھا۔ ملکی وزارت داخلہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ سوات آپریشن کے ردعمل کے طور پر طالبان ملک کے دیگر شہروں میں دہشت گردانہ حملے کر سکتے ہیں۔
سوات میں جاری آپریشن میں پاکستانی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1100عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں اور اس آپریشن میں 60 سپاہی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکی۔
بدھ کے روز لاہور میں ہونے والے حملے کے بعد
صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا کہ سوات میں عسکریت پسند کی مکمل شکست قریب ہے اور وہ اسی پریشانی میں ایسے حملے کر رہے ہیں۔