1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور بم دھماکے، مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 45

8 دسمبر 2009

پاکستانی شہر لاہور کے مشہور رہائشی علاقے علامہ اقبال ٹاؤن میں واقع مرکزی کاروباری مقام مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں ہلاک شدگان کی تعداد مختلف ذرائع کے مطابق اب چالیس سے تجاوز کر گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/KwNs
لاہور میں ہونے والے ایک سابقہ خود کش بم حملے کی تصویر: فائل فوٹوتصویر: AP

صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے بم دھماکوں کے مقامات کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد چالیس ہے۔ ہلاکتوں کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں۔ ہسپتال ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اِن کے علاوہ پنجاب حکومت کے مختلف وزراء نے ان دھماکوں میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

پاکستان کے ثقافتی شہر لاہور کے ان حملوں میں تقریباً ایک سو افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں کئی ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق تقریباً ستر سے زائد زخمیوں کو شیخ زید ہسپتال جبکہ پچیس کو جناح ہسپتال میں داخل کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق لاہور کی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے مردہ خانے میں شناخت کے لئے تینتالیس لاشیں لائی گئیں۔

پولیس کا خیال ہے کہ دونوں ہی بم دھماکے خود کش تھے۔ تاہم لاہور پولیس کے ایس پی آپریشن شفیق گجر کے مطابق ایک خود کش جبکہ دوسرا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا بم دھماکہ ہے۔

Pakistan Explosion einer Bombe in Lahore
لاہور میں ہونے والے ایک اور پرانے بم دھماکے کے بعد کی تصویر:فائل فوٹوتصویر: AP

لاہور کے ناظم میاں عامر محمود نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے خلاف پوری قوم کو متحد ہوکر لڑنا چاہیے۔ میاں عامر نے لاہور بم دھماکوں کی شدید مذمت بھی کی۔ پنجاب صوبے میں پیپلز پارٹی کے اہم رہنما راجا ریاض نے بتایا کہ تمام تر سیکیورٹی اقدامات کے باوجود اس طرح کے واقعات رونما ہونا تشویشناک ہے۔ راجا ریاض نے بھی لاہور بم دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

ان دھماکوں کے بعد آگ بھی لگ گئی، جس کی وجہ سے مزید افراتفری پھیل گئی تھی۔ اِس باعث بھی متاثرہ مقامات تک امدادی ٹیموں کی رسائی اور ایمبیولینسوں کو قدرے مشکلات کا سامنا رہا۔

مون مارکیٹ کو جانے والے تمام راستوں کو بم دھماکوں کے بعد پولیس نے فوری طور پر بند کردیا تھا۔ لوگوں کو مختلف راستوں سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔ مارکیٹ اور قرب وجوار کے سارے علاقے میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی تھی۔

مون مارکیٹ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے چند ہی کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اِس کے قریب کئی اہم تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن کی مشہور مون مارکیٹ کاروباری مرکز کے علاوہ لوگوں کی تفریح کے ساتھ ساتھ لذیز کھانوں کا بھی اہم مرکز ہے۔ خاندان کے خاندان یہاں کے ریستورانوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ مارکیٹ میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نسائی زیبائش کی اشیاء کی شوق و ذوق سے شاپنگ کرتی ہیں۔

اِس سے پہلے پیر کی صبح شمال مغربی سرحدی صوبے کے مرکزی شہر پشاور کی سیشن کورٹ میں خود کش حملے میں کم از کم گیارہ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی گئی تھی۔

رپورٹ : عابد حسین

ادارت : گوہر گیلانی