لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی رہائی
15 اپریل 2009بدھ کے روز سپریم کورٹ نے انہیں لال مسجد سے ملحقہ چلڈرن لائبریری پر قبضے کے آخری مقدمے میں بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا ۔ عدالت نے مولانا عبدالعزیز کے وکیل کو حکم دیا ہے کہ وہ دو لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروائیں۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق مولانا عبدالعزیز کی رہائی حکومت اور لال مسجد انتظامیہ کے درمیان اس خفیہ مفاہمت کے بعد ممکن ہو سکی ہے جس کے تحت مولانا رہائی کے بعد اشتعال انگیز تقاریر اور حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ نہیں کریں گے۔ تاہم مولانا عزیز کے وکیل شوکت صدیقی نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے ناکافی ثبوت کی بنیاد پر ان کے مؤکل کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
’’بینچ نے مولانا عبدالعزیز کی ضمانت منظور کر لی ہے اور عدالت نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اس کیس میں مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی ایسا میٹریل نہیں ہے جس کی بنیاد پر ان کو ضمانت پر رہا نہ کیا جا سکے۔‘‘
خیال رہے کہ مولانا عبدالعزیز کو خفیہ ایجنسیوں نے جولائی2007ء میں لال مسجد آپریشن کے دوران اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم سوات میں نظام عدل ریگولیشن کے باقاعدہ نفاذ کے موقع پر مولانا عبدالعزیز کی رہائی کو معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اگرچہ سوات کے طالبان اور صوبائی حکومت نے نظام عدل کے نفاذ کے موقع پر خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے تاہم امریکی حکومت اور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سینیٹر جان کیری نے سوات امن معاہدے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان رابرٹ گبز نے بھی سوات معاہدے کو حقوق انسانی اور جمہوریت کے اصولوں سے متصادم قرار دیا ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کے زیر انتظام نظام عدل اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام قانونی نظام کس طرح اکٹھے چل پائیں گے۔