1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لائبیریا کے سابق صدر چارلس ٹیلر پر عالمی عدالت میں مقدمہ

14 جولائی 2009

حالیہ سالوں میں لائبیریا کے سابق صدر چارلس ٹیلر پر انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرائم کا مرتکب کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمے کی کارروائی عالمی عدالت انصاف کے مرکز دی ہیگ میں جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/IpF5
چارلس ٹیلر دی ہیگ کی عالمی عدالت میںتصویر: AP

افریقی ملک لائبیریا گذشتہ دو دہائیوں سے مسلح بغاوتوں اور پرتشدد گروہوں کا مرکز رہا ہے، اور یہ سب وہاں کی حکومتوں کے زیر انتظام ہوتا رہا ہے۔ آج منگل کے روز سابق صدرچارلس ٹیلر نے اپنی صفائی میں بیان دیتے ہوئے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔

لائبیریا کے سابق صدر چارلس ٹیلر نے آج دی ہیگ میں خود پر لگے تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جاری مقدمہ جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے تینوں ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’مجھے خود پر لگائے گئے الزامات پر انتہائی حیرت ہے۔ اس مقدمے پر مجھے شدید افسوس ہے کیونکہ یہ مقدمہ غلط اطلاعات، افوہوں اور جھوٹ کو بنیاد بنا کر قائم کیا گیا ہے۔‘‘

ٹیلرکو لائبیریا کے صدر کے طور پر اپنے ہی ملک میں افریقہ کی دہشت گرد تنظیم متحدہ انقلابی فرنٹ کے باغیوں کو مسلح تربیت دینے، اسلحہ فراہم کرنے اور ان سے معاوضے کی صورت میں مشہور زمانہ خونی ہیرے لینے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر انسانیت کے خلاف گیارہ سنگین جرائم کا مرتکب ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ہے، جن میں قتل، جسمانی زیادتی اور کم سن بچوں کی فوج میں بھرتی شامل ہیں۔

چارلس ٹیلر پر پڑوسی ملک سیئرا لیون میں مسلح بغاوتوں کو پروان چڑھانے اور متحدہ انقلابی فرنٹ کے باغیوں سے عام لوگوں کو قتل کروانے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لائبیریا اور سیئرا لیون میں ہوئی ان مسلح بغاوتوں میں تقریباً ۲۵ ہزار عام شہریوں کو قتل کیا گیا۔

چارلس ٹیلر نے 1997 ء میں افریقی ریاست لائبیریا کا اس وقت اقتدار سنبھالا، جب مسلح باغیوں نے سابق صدر سیمیول ڈو کی حکومت کا تختہ الٹا۔ تاہم ٹیلر کو فقط چھ سال کے بعد خود بھی ایک مسلح بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے بچ کر انہوں نے2003 ء میں نائیجیریا میں پناہ لی۔ نائیجیرین حکومت نے 2006ء میں ان کو سیئرا لیون کی حکومت کے حوالے کردیا، جہاں سے انہیں دی ہیگ منتقل کردیا گیا، تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ اپنے دور حکومت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ٹیلر نے عالمی عدالت انصاف کو بتایا: ’’ملک میں انتخابات ہوئے، مگر اس وقت کے صدر سیمیول ڈو نے ان انتخابات میں دھاندلی کی۔ اس دھاندلی کے خلاف عوام میں کافی غم و غصہ پیدا ہوا، جس کو دبانے کے لئے پورے ملک میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس لئے ہم نے حکومت میں آنے کا فیصلہ کیا، تاکہ حالات کو قابو کیا جاسکے اور ملک میں جمہوریت نافذ کی جاسکے۔‘‘

لائبیریا میں گذشتہ دو دہائیوں میں ہوئے جنگی جرائم کے کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں چارلس ٹیلر کو ان آٹھ جنگی سرداروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جن پر اس افریقی ملک میں انسانیت سوز مظالم کرنے کے الزامات عائد ہیں۔

رپورٹ : انعام حسن

ادارت : امجد علی