1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لاؤڈ اسپیکر بند کریں اور نماز کے لیے واٹس اپ استعمال کریں‘

15 اپریل 2018

افریقی ملک گھانا کے حکام چاہتے ہیں کہ مسلمان اذان کے لیے لاوڈ اسپیکروں کا استعمال ترک کر دیں اور نماز کے بلاوے کے لیے واٹس اپ کا استعمال کریں۔ اس کا مقصد ’شور کی آلودگی‘ کو کم کرنا بتایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2w5LZ
Betende Muslime an Eid al-Fitr in Ghana
تصویر: picture alliance/AA/J. Perdigo

افریقی ممالک کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک، بڑے بڑے اسپیکروں پر موسیقی اور اونچی اونچی آواز میں اپنے کاروبار کی تشہر کرنے والے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ لیکن گھانا کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود مساجد اور چرچ ’شور کے مسائل‘ میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ گھانا کے دارالحکومت میں خاص طور پر حکومت اس کوشش میں ہے کہ مساجد کے لاوڈ اسپیکر بند کروا دیے جائیں۔

حکام نے مساجد کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ نمازیوں کو یا تو موبائل یا پھر واٹس اپ میسج کر کے بلایا کریں۔ گھانا کے وزیر برائے ماحولیات خوابینا فریمپونگ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس میں کیا مسئلہ ہے کہ نماز کے لیے لوگوں کو ٹیکسٹ میسج کے ذریعے نہیں بلایا جا سکتا۔ یہ کام تو ہر ایک امام کر سکتا ہے۔‘‘

Ghana Accra - Markt
تصویر: picture-alliance/ZB/T. Schulze

وزیر برائے ماحولیات کا مزید کہنا تھا، ’’میرے خیال سے اس طرح ہم شور میں کمی لا سکتے ہیں۔ یہ بات شاید متنازعہ بھی ہو لیکن اس کے حوالے سے سوچا جا سکتا ہے۔‘‘ حکومت کا امید ظاہر کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس طرح ’’شور‘‘ میں کمی لائی جا سکے گی۔

دوسری جانب دارالحکومت آکرہ میں رہنے والے مسلمانوں کے خیال میں اس حکومتی تجویز کو قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک مسجد کے امام شیخ احمد کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لاوڈ اسپیکروں کی آواز تو کم کی جا سکتی ہے لیکن ٹیکسٹ مسیجز کرنا مالی لحاظ سے بھی ممکن نہیں ہے، ’’یہاں تو آئمہ کو ماہانہ تنخوا ہی ادا نہیں کی جاتی، میسج کرنے کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ ہم وہ کر سکتے ہیں، جو ممکن ہے۔‘‘

Ghana Tamale - Kirche
تصویر: DW/M. Suuk

اسی طرح ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرنے والے کئی دیگر مسلمانوں نے بھی اس تجویز کو مسترد کیا ہے۔  دارالحکومت میں ہی رہنے والی ایک خاتون نورہ نسا کا کہنا تھا، ’’ میرے خیال سے مسلمان صبح سویر اذان دے کر کوئی برائی نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں چرچ بھی تو ہیں، جن کے لاوڈ اسپیکر مساجد سے بھی بڑے ہیں اور وہ بھی عبادت صبح سویرے ہی کرتے ہیں۔‘‘

اسی شہر کے رہائشی کیوین پرات کا اس حکومتی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہر کوئی سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا اور ہر کوئی پڑھا لکھا بھی نہیں ہے۔‘‘

دریں اثناء گھانا حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ جلد ہی اس حوالے سے ملک بھر میں نیا قانون نافذ کر دے گی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق شور انسانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

اسحاق قلدیزی، ا ا / ع ح