1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندیل بلوچ کے قتل پر کوئی پچھتاوا نہیں، بھائی

بینش جاوید18 جولائی 2016

سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے شہرت پانی والی پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو ’غیرت کے نام‘ پر قتل کرنے والے ان کے بھائی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں قندیل بلوچ کو ہلاک کرنے پر کوئی دکھ یا پچھتاوا نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1JQl7
Pakistan Beerdigung Qandeel Baloch
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza

قندیل بلوچ سوشل میڈیا پر اپنی ’بے باک‘ ویڈیوز شئیر کرنے کے باعث جانی جاتی تھیں۔ ٹوئٹر پر ان کے 43 ہزار اور فیس بک پر 7 لاکھ فالووَرز تھے۔

ہفتے کے روز وسیم عظیم نے اپنی بہن کو قتل کر دیا تھا۔ پولیس نے وسیم عظیم کو حراست میں لے لیا ہے۔ قندیل بلوچ کے قتل نے پاکستان میں ایک مرتبہ پھر ’غیرت کے نام پر قتل‘ کیے جانے کے حوالے سے قانون میں ترمیم کرنے کی بحث چھیڑ دی ہے۔

حال ہی میں قندیل بلوچ کی مولوی عبدالقوی کے ساتھ سوشل میڈیا پر جاری تصاویر پاکستانی میڈیا پر زیر بحث رہیں۔

قندیل کے بھائی وسیم نے میڈیا کے سامنے بتایا کہ ان تصویر کے شائع ہونے کے بعد لوگ انہیں طعنے دیتے تھے اور یہ بات ان کے لیے قابل برداشت نہیں رہی تھی۔

Qandeel Baloch mit Mufti Abdul Qavi
ٹوئٹر پر اقندیل بلوچ کے 43 ہزار اور فیس بک پر 7 لاکھ فالووَرز تھے۔تصویر: https://www.youtube.com/watch?v=vJkm3flB46g

وسیم عظیم کا کہنا تھا کہ اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ یا تو وہ خودکشی کر لے گا یا قندیل کو قتل کر دے گا۔

قندیل کے والد نے ایک بیان میں کہا، ’’ قندیل میری بیٹی نہیں بلکہ بیٹا تھا۔ وہ نہ صرف ہماری مالی سرپرستی کر رہی تھی بلکہ اپنے بھائی جس نے اسے قتل کر دیا ہے اس کی بھی مالی مدد کرتی تھی۔‘‘

اس حوالے سے قندیل کے نشے کے عادی بھائی وسیم نے میڈیا کے سامنے بتایا، ’’پیسے سے زیادہ خاندان کی عزت اہم ہے۔‘‘ وسیم نے یہ بھی کہا کہ بے شک وہ نشہ کرتا ہے لیکن قندیل کو اںہوں نے ہوش و حواس میں قتل کیا۔

پاکستان کے تمام اہم اخبارات اور جریدوں میں قندیل بلوچ کے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کیے جانے کے حوالے سے کئی مضامین اور اداریے شائع کیے گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر بحث کی جاری ہے۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان کے ایک مضمون میں ہما یوسف نے لکھا ہے، ’’قندیل بلوچ کے قتل کے بعد مجھے توقع تھی کہ پاکستان کے وزیراعظم کوئی بیان دیں گے جیسا کہ انہوں نے غیرت کے نام پر قتل کیے جانے والی لڑکی زینت رفیق کی موت کے بعد دیا تھا۔‘‘

فیس بک صارف سعیدہ رباب نے لکھا، ’’ہم ایک منافقانہ معاشرے میں رہتے ہیں، قندیل بلوچ نے اپنی زندگی کا انتخاب خود کیا تھا، وہ سب کچھ تھی لیکن منافق نہیں تھی۔‘‘

فیس بک پر ہی فیض احمد نے لکھا، ’’کچھ بھی ہو کسی انسان کو کسی کی زندگی ختم کردینے کا کوئی حق نہیں۔‘‘

سوشل میڈیا پر کچھ افراد نے قندیل بلوچ کی موت کا ذمہ دار کچھ حد تک میڈیا کو بھی ٹہرایا ہے۔ ان کی رائے میں میڈیا نے ریٹینگ کی دوڑ میں قندیل بلوچ کے ماضی، اس کے اصل نام اور اس کے خاندان کے بارے میں خبریں شائع کیں جس نے اس کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔

جہاں اس جواں سال خاتون کے قتل کی بھر پور مذمت کی گئی تو وہیں پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں سوشل میڈیا پر قندیل کے بولڈ کردار کے باعث معاشرے کا ایک طبقہ اس کے قتل کو جائز قرار دیتا بھی دکھائی دیا۔

پاکستان میں ہر برس ایک ہزار سے زائد عورتوں کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کر دیا جاتا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت ’غیرت کے نام پر قتل‘ کرنا جرم ہے تاہم قتل کیے جانے والے مرد یا عورت کے اہل خانہ موجودہ قانون کے تحت قاتل کو معاف کر دینے کا حق رکھتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں