1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندوز متنازعہ حملہ، جرمن پارلیمانی تحقیقات شروع

10 فروری 2010

افغانستان میں قُندوز کے مقام پر ہونے والی ہولناک بمباری سے متعلق جرمن پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی بدھ کو ابتدائی چار گواہوں کے بیان لے گی۔

https://p.dw.com/p/LxaJ
تصویر: AP

اس تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والوں میں پہلے گواہ جرمن فوج کے کرنل گیورگ کلائن ہوں گے، جن کے کہنے پر گزشتہ برس چار ستمبر کو طالبان کے زیرِ قبضہ دو ٹینکروں پر فضائی بمباری کی گئی تھی۔ اِس حملے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں سمیت 142 افراد مارے گئے تھے۔

قُندوز کے اِس متنازعہ حملے کے اصل اسباب جاننے کے سلسلے میں کرنل کلائن کا بیان کلیدی اور فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اُن دو ٹینکروں پر، جنہیں طالبان چھین کر لے گئے تھے، فضائی بمباری اُنہی کے طلب کرنے پر کی گئی تھی۔ اِس حملے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں سمیت کم از کم 142 افراد کی ہلاکت جرمن دارالحکومت میں ایک ایسے سیاسی زلزلے کا باعث بنی، جس کے نتیجے میں سابق وزیر دفاع فرانس یوزیف یُنگ کو، جو موجودہ حکومت میں وزیرِ محنت تھے، اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ موجودہ وزیر دفاع کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ کو بھی سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن اَفواج کے سربراہ اور وزارتِ دفاع کے ایک اسٹیٹ سیکریٹری کو بھی سبکدوش کر دیا گیا جبکہ نیٹو میں ساتھی ممالک کی جانب سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ خاص طور پر آئی سیف دَستوں کے کمانڈر سٹینلے میک کرسٹل نے جرمن کرنل کی طرف سے دئے گئے احکامات کو ہدفِ تنقید بنایا۔

Der deutsche Oberst Georg Klein
جرمن فوج کے کرنل گیورگ کلائنتصویر: AP

گو موجودہ وزیر دفاع سُو گٹن برگ اپنے فوجی افسران کی تائید و حمایت کرتے ہیں لیکن وہ اِس فضائی حملے کو بہرحال ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔

’’اگرچہ کرنل کلائن نے وہی فیصلہ کیا، جو اُن کی معلومات اور ضمیر کے مطابق اور اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لئے بہترین تھا، تاہم آج معروضی نقطہء نظر سے اور اُن تمام دستاویزات کی روشنی میں دیکھا جائے، جو مجھے تب نہیں دکھائی گئیں، یہ حملہ فوجی اعتبار سے کوئی موزوں اور مناسب کارروائی نہیں تھی۔‘‘

سُو گٹن برگ کا اشارہ پانچ پانچ سو پاؤنڈز وزنی اُن دو بموں کی جانب تھا، جو کرنل کلائن کے طلب کرنے پر آنے والے امریکی جیٹ طیاروں نے مقامی وقت کے مطابق صبح ایک بج کر پچاس منٹ پر ان ٹینکروں پر پھینکے۔ مقصد اُن مردوں کو نشانہ بنانا تھا، جو دریائے قُندوز میں پھنسے ٹینکروں کے آس پاس کھڑے تھے۔ جرمن فوج کے ایک مخبر کے مطابق یہ سب طالبان تھے۔

آئی سیف کے ضوابط کے مطابق فضائی مدد صرف اُسی صورت میں طلب کی جانی چاہیے، جب اتحادی دَستے جھڑپوں میں ملوث ہوں۔ چار ستمبر دو ہزار نو کو یہ صورتحال نہیں تھی، اِس کے باوجود آئی سیف کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کرنل کلائن نے ’دشمن سے مڈبھیڑ‘ کی خبر دی۔

Guttenberg im Kundus
جرمن وزیر دفاع سو گوٹن برگ قندوز جائے واقعہ کے دورے کے دورانتصویر: AP

جرمن کمانڈر نے غلط حقائق کیوں بتائے، یہی پتہ چلانا اب تحقیقاتی کمیٹی کا کام ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی پائلٹوں نے پہلے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ نیچی پرواز کرتے ہوئے ہدف کے اوپر سے گذرتے ہیں تاکہ انسانوں کا گروپ خبردار ہو جائے۔ تاہم اُس رات کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ جرمن کمانڈر ہر صورت میں اُن طالبان کو ہلاک کروانا چاہتا تھا۔ کرنل کلائن نے نہ صرف ISAF کے ضوابط کی پاسداری نہ کی بلکہ اُس نے مزارِ شریف میں جرمن فوج کے ہیڈکوارٹر میں موجود اپنے افسر جنرل ژوئرگ فولمر کو بھی مطلع نہیں کیا۔

جرمن فوج کے عام طور پر محتاط افسروں کی یوں من مانی کارروائی غیر معمولی بات ہے۔ ایسے میں جرمن پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی کے کئی ارکان، جیسے کے سوشل ڈیموکریٹ رائنر آرنولڈ بھی اُلجھے ہوئے ہیں:’’ظاہر ہے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو پہلے سے ہی سزاوار قرار دے دیا جائے۔ ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ کرنل کلائن کے سلسلے میں بھی ابتدائی مفروضہ یہی ہے کہ وہ بے گناہ ہیں۔ تاہم یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اُنہیں پہلے ہی بری کر دیا جائے۔ بالآخر یہ جانچنا عدلیہ کا کام ہے۔‘‘

اِس فضائی حملے سے متعلق برلن میں وزارتِ دفاع کی جانب سے سب سے پہلے یہ کہا گیا کہ تمام مرنے والے صرف اور صرف طالبان تھے، جو پٹرول سے بھرے ٹینکروں کو قریب ہی واقع جرمن فوج کے کیمپ کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔ کرنل کلائن کے احکامات کے نتیجے میں اِس حملے کا امکان ختم ہو گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لیکن یہ پتہ چلا کہ یہ کہانی محض جزوی طور پر درست تھی۔ گرین پارٹی کی کلاؤڈیا روتھ کہتی ہیں: ’’غالباً یہ حملہ اِس پریشانی کی وجہ سے کروایا گیا کہ ٹینکروں کو بموں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب لیکن پتہ یہ چلا ہے کہ مقصد دو پھنسے ہوئے ٹینکروں کو نہیں بلکہ اُن کے اردگرد جمع باغیوں کو نشانہ بنانا تھا۔ گویا اِس کارروائی کا مطلب تاک کر ہلاک کرنا تھا۔‘‘

حکومت نے جس طرح سے اصل حقائق چھپانے کی کوشش کی، اُس پر جرمن اپوزیشن برہم ہے اور اپوزیشن ہی کے مطالبے پر یہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اِس کا اجلاس بند کمرے میں ہو گا۔

رپورٹ : نینا وَیرک ہوئیزر، برلن / امجد علی

ادارت : عاطف توقیر