1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطری قانون حاملہ تارکین وطن خواتین کو نشانہ بناتا ہوا

عاطف توقیر آنا پی سینٹوز
27 جون 2017

قطر میں زنا کے الزام میں حاملہ تارکین وطن خواتین کو سزائے قید دی جا رہی ہے۔ قطری قوانین کے مطابق نکاح کے بغیر جنسی تعلقات قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2fTqv
Katar Umgang mit Migrantinnen
تصویر: OM

این نامی تارک وطن خاتون کا بچہ اسے ملازمت دینے والے گھر کے غسل خانے میں ہوا۔ وہ وہاں پانی، خون اور پسینے میں شرابور ہوتی رہی اور اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔

اس وقت تک اس گھرانے کو علم بھی نہیں تھا کہ وہ حاملہ ہے۔ وہ ہمیشہ پھولے ہوئے پیٹ کو وزن میں اضافہ بتاتی رہی اور اپنے پیٹ کو کھلے لباس میں چھپاتی رہی۔

25 سالہ فلپائنی خاتون این نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں اپنے باس کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ میں حاملہ ہوں۔ وہ مجھ سے اپنی بیٹی کی طرح برتاؤ کرتا تھا اور مجھے خوف تھا کہ یہ سن کو انہیں دکھ ہو گا۔‘‘

این کو یہ خوف بھی تھا کہ اس کے حاملہ ہونے کے کچھ سنگین قانونی نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

Katar Umgang mit Migrantinnen
قطر میں تارک وطن خواتین اس حوالے سے متاثرہ افراد میں سرفہرست ہیںتصویر: OM

این سن 2015ء میں پہلی بار گھریلو نوکرانی کے طور پر دوحہ پہنچی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ قطر ایک قدامت پسند ملک ہے اور یہاں ’بوائے فرینڈ‘ رکھنا سختی سے منع ہے مگر اسے یہ علم نہیں تھا کہ وہ غیرشادی شدہ ہونے کے باوجود حاملہ ہونے پر جیل بھی جا سکتی ہے۔

قطری قوانین کے مطابق اگر وہ شادی شدہ نہیں اور حاملہ ہے، تو اس پر ’زنا‘ کے الزامات کے تحت مقدمہ چلے گا۔ اسلامی قوانین نکاح کے بغیر جنسی روابط کو جرم قرار دیتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق زنا کے سب سے زیادہ مقدمہ خلیجی ممالک میں چل رہے ہیں اور زیادہ تر معاملات میں صرف خاتون ہی کو مجرم قرار دے کر سزا دی جاتی ہے۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ’زنا‘ سے متعلق قوانین اور سزائیں مختلف طرز کی ہیں، جو ایک برس قید سے لے کر کوڑے مارے جانے تک جب کہ اگر ’غیرقانونی جنسی روابط‘ میں ملوث شخص پہلے سے شادی شدہ ہو، تو یہ سزا سنگ ساری تک کی ہو سکتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں زنا کے قوانین کے تحت خواتین کو سزا دیے جانے کی سطح غیرمعمولی ہے۔

این کو کام دینے والے گھرانے کو ان قوانین کا علم تھا اور انہیں نے اس کی بھرپور مدد کی بھی کوشش کی۔ بچے کی پیدائش کے بعد وہ اسے ہسپتال لے گئے، مگر وہاں سے اسے پولیس اسٹیشن جانا پڑا۔ ’’انہوں نے کہا کہ وہ میرا خیال رکھیں گے مگر ہمیں پولیس اسٹیشن جانا پڑا۔ اگر وہ مجھے اس کے باوجود اپنے پاس رکھتے، تو انہیں بھی سزا دی جا سکتی تھی۔‘‘