قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کو سزائے موت سنا دی گئی
28 جولائی 2015طرابلس سے منگل اٹھائیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سیف الاسلام کے ساتھ جن دیگر ملزمان کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے، ان میں خونریز عوامی مظاہروں کے دوران ہلاک کر دیے جانے والے آمر معمر قذافی کے دور کے انٹیلیجنس چیف عبداللہ سینوسی اور قذافی کے دور کے آخری وزیر اعظم البغدادی المحمودی بھی شامل ہیں۔
آج جس وقت یہ فیصلہ سنایا گیا، اس وقت سیف الاسلام قذافی عدالت میں موجود نہیں تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیف الاسلام کو جنوب مغربی لیبیا میں زنتان کے پہاڑی قصبے میں اس ملیشیا کے مسلح ارکان نے اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے، جو طرابلس میں حکام کی مخالف ہے۔
لیبیا کے دارالحکومت میں اس مقدمے کی سماعت کا آغاز گزشتہ برس اپریل میں ہوا تھا اور اس عدالتی کارروائی پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے شدید تنقید بھی کی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس بارے میں تنازعہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے کہ سیف الاسلام قذافی کے خلاف مقدمے کی سماعت کا اختیار لیبیا کی کسی ملکی عدالت کو حاصل ہے یا پھر دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کو۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس مقدمے میں جن 37 ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی مکمل کی گئی، ان پر لگائے گئے الزامات میں 2011ء میں آمریت کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران قتل، قتل پر اکسانے اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں پر اکسانے جیسے الزامات شامل تھے۔ باقی ملزمان کے بارے میں عدالتی فیصلے کی تفصیلات غیر واضح ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جس ملیشیا کے مسلح ارکان نے سیف الاسلام قذافی کو اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے، وہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ لیبیا کی اس حکومت کی وفادار ہے، جس کے ارکان گزشتہ برس اگست میں طرابلس سے فرار ہو کر ملک کے دور دراز مشرقی علاقے میں چلے گئے تھے۔ یہ ملیشیا لیبیا کی ہی اس ملیشیا کی مخالف ہے، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ملکی حکومت کے طرابلس سے فرار کے بعد نہ صرف طرابلس پر قابض ہو گئی تھی بلکہ اس نے ملکی دارالحکومت میں اپنی ایک متوازی ملکی انتظامیہ بھی قائم کر دی تھی۔
اس مقدمے کے دوران سیف الاسلام قذافی صرف ایک بار اس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے، اور وہ بھی زنتان سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے۔ پچھلے برس مئی میں اس عدالتی پیشی کے بعد سے سیف الاسلام قذافی ایک بار بھی منظر عام پر نہیں دیکھے گئے۔
سیف الاسلام قذافی ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلقہ الزامات میں مطلوب ہیں۔ نومبر 2011ء میں سیف الاسلام کی گرفتاری کے بعد سے یہی عالمی عدالت لیبیا سے کئی بار مطالبہ کر چکی ہے کہ معمر قذافی کی زندگی میں ہی ان کے جانشین سمجھے جانے والے ان کے اس بیٹے کو اس عدالت کے حوالے کیا جائے تاکہ اس کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے۔ اب تک اس عدالت کے ایسے تمام مطالبات بے نتیجہ ہی رہے ہیں۔