قدرتی آفات کا ذمہ دار انسان بھی ہے، ماہرین
2 اکتوبر 2009ارضیات کے ماہرین کے مطابق ایشیا میں ان آفات کے نتیجے میں ہوئی ہلاکتوں کو قدرت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی کارستانی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کے ان غیر ذمہ دارانہ کاموں میں جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی اور شہروں کو بسانے کیدرست طور پر پلاننگ نہ کرنے سے لے کر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے بہتر سہولیات کا نہ ہونا شامل ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف سے منسلک ایک ماہر ارضیات نے فلپائن اور انڈونیشیا میں آئی قدرتی آفات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی آفات سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے اگر وہاں کی حکومتیں اور شہری اپنے مکانات تعمیر کرتے وقت سمجھ داری کا مظاہرہ کریں۔ ’’ان آفات کی بنیادی وجوہات ماحولیات میں روزبروز اور تیزی سے آتی تبدیلیوں کے علاوہ جنگلات کی کمی اور بہتر پلاننگ کا فقدان ہیں۔‘‘
فلپائن میں اسی ہفتے آنے والے سیلاب کو حکام نے گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے زیادہ ہونے والی بارش کا نتیجہ قرار دیا تھا، مگر ماہرین منیلا میں اس سیلاب کو نکاسیء آب کی بنیادی سہولیات کے فقدان کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب شہریوں کی طرف سے دریاؤں کے کنارے کچے گھروں کی تعمیر بھی کسی بھی قدرتی آفت آنے کی صورت میں زیادہ انسانوں کی موت کا باعث بنتی ہے۔
ایشیاء میں ایسے شہروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، جہاں ایک ملین سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔ ایشیئن ڈیویلپمنٹ بینک کے مطابق دنیا بھر میں 2008 ء تک 3.3 فیصد افراد شہروں میں رہتے تھے، جبکہ 2030 ء تک ان کی تعداد پانچ بلین تک ہوجائے گی۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بیسیویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں صرف 11 شہر ایسے تھے جن کی آبادی ایک ملین سے زیادہ تھی، تاہم گزشتہ صدی کے اختتام تک یہ تعداد 500 تک پہنچ گئی۔
رپورٹ: انعام حسن
ادارت: افسر اعوان