1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قاتل کتنے سنگ دل ہو سکتے ہیں: جرمن جوڑے کو طویل سزائے قید

5 اکتوبر 2018

جرمنی میں ایک ایسے جوڑے کو طویل مدت کی قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں، جو اجنبی خواتین کو دھوکے سے اپنے گھر بلا کر پہلے ان پر ذہنی اور جسمانی تشدد کرتا تھا اور پھر ان عورتوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا جاتا تھا۔

https://p.dw.com/p/362Q6
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch

اس جرمن مرد اور اس کی سابقہ بیوی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے ہولناک جرائم کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ملکی میڈیا کی طرف سے ان کے گھر کو ’خوف و دہشت کی آماجگاہ‘ اور ’عقوبت خانہ‘ قرار دیا جانے لگا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی جمعہ پانچ اکتوبر کو ڈسلڈورف سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس جرمن جوڑے کا تعلق ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے ایک چھوٹے سے شہر ہوئکسٹر (Höxter)  سے ہے۔ دونوں ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت دو سال تک جاری رہی، جس کے اختتام پر عدالت نے ملزم کو گیارہ سال اور ملزمہ کو تیرہ برس قید کی سزائیں سنائیں۔

ان دونوں کے خلاف یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ اس وقت 48 سالہ مرد ولفریڈ اور اس کی 49 سالہ سابقہ بیوی انگیلیکا برس ہا برس تک مختلف بہانوں سے ذاتی نوعیت کے اشتہارات دے کر اجنبی خواتین کو اپنے گھر بلاتے تھے اور پھر ان خواتین کو قید میں رکھا جاتا تھا۔

Mordprozess von Höxter - Urteil erwartet
ملزمہ انگیلیکا، دائیں سے دوسری، اور ملزم ولفریڈ، دائیں سے پانچواں، عدالت میں اپنے وکلاء کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch

اس دوران ان دونوں کی طرف سے یرغمالی خواتین پر شدید نوعیت کا ذہنی اور جسمانی تشدد اور ان کا استحصال بھی کیا جاتا تھا۔ استغاثہ کے مطابق اس ’قاتل جوڑے‘ نے کم از کم دو خواتین کو قتل کیا اور کئی دیگر عورتوں کو طویل عرصے تک تشدد کا نشانہ بنایا۔

ایسی یرغمالی خواتین میں سے ایک خاتون شدید زخمی حالت میں ایک مقامی ہسپتال میں اس وقت انتقال کر گئی تھی، جب ملزمہ انگیلیکا نے اس کی جان بچانے کے لیے ایمبولینس بلا لی تھی۔ اس خاتون کے جسم پر تب شدید تشدد کے نشان اور زخم تھے، باندھ کر رکھے جانے کی وجہ سے اس کے جسم پر نیل پڑے ہوئے تھے اور اس کے پاؤں کے ناخن بھی انگلیوں سے اکھاڑ دیے گئے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جو دوسری خاتون ان ملزمان کے ہاتھوں قتل ہوئی تھی، اس کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ ملزم ولفریڈ کے مطابق اس نے اور اس کی سابقہ بیوی نے اس خاتون کو قتل کر دیا تھا۔ ملزمہ انگیلیکا کے اعترافی بیان کے مطابق اس کے سابق شوہر اور شریک ملزم ولفریڈ نے اس خاتون کی لاش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے انہیں جلا دیا تھا اور راکھ سردیوں کے موسم میں اپنے قصبے کی برف سے ڈھکی سڑکوں پر جگہ جگہ بکھیر دی تھی۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق یہ ملزمان جن اشتہارات کے ذریعے اپنا شکار بننے والی خواتین کو دھوکے سے اپنا ہاں بلاتے تھے، وہ ضرورت رشتہ کے نجی اشتہار ہوتے تھے۔ ان میں کہا جاتا تھا، ’’اکیلے زندگی گزارنے والے کسان کو بیوی کی ضرورت ہے۔‘‘ ممکنہ شادی اور اس سے قبل رابطے اور ملاقات کے ان اشتہارات میں ملزم ولفریڈ خود کو ’تنہا، نفیس انسان، شفیق اور بہت مہذب‘ بتایا کرتا تھا۔

نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق عدالتی فیصلہ سنائے جانے سے قبل ملزمہ انگیلیکا نے اپنے جرائم پر شرمندگی کا اظہار کیا اور ان تمام خواتین سے معافی مانگی، جو اس کے جرائم کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہوئی تھیں۔

عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ ملزم ولفریڈ کو دماغی علاج کے لیے ذہنی مریضوں کے ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔ استغاثہ کے مطابق، جس نے دونوں ملزمان کے لیے عمر قید کا مطالبہ کیا تھا، ملزم ولفریڈ اپنے جرائم میں اس حد تک جنونی تھا کہ وہ اچھے برے اور صحیح غلط کے درمیان تفریق کا اہل ہی نہیں رہا تھا۔

م م / ع ح / روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں